نو سال کا آفتاب پس زندان ۔ راشد حسین

140

نو سال کا آفتاب پس زندان 

راشد حسین

دی بلوچستان پوسٹ 

‎ہر صبح جب نیند سے اٹھتی ہوں تو پورا دن ایک عکس میرے زہن میں گھومتی رہتی ہےوہ معصوم بچہ زنجیروں سے بندھےہاتھ ،کونے میں پڑا ہوامعصوم آنکھوں سے مجھے تکتا ہےوہ خاموش ہےمگر اس کی آنکھیں چیختی ہیں مجھے پکارتی ہیں مجھ سے مدد مانگتی ہیں۔میں اس تک پہنچنا چاہتی ہوں خیالوں کی دنیا اتنی طویل ہےکہ قدم آگے بڑھاتی ہوں تو میلوں کا سفر طے کر کے بھی اس تک نہیں پہنچ پاتی۔

‎وہ معصوم بچہ آفتاب ہے۔شاید آپکو یاد ہوگا۔شاید آپ بھولے نہیں ہیں وہ قیامت سی رات جب چھ بلوچ نوجوانوں کے ساتھ آفتاب اور الفت کو رات کے 2 بجے کراچی رینجرز اٹھا کر لے گئی تھی۔28 اکتوبر 2017 شب 1 سے 3 بجے کے درمیان کراچی رینجرز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے نو سالہ آفتاب ،گیارہ سالہ الفت اور باقی چھ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کو اب چار ماہ پورے ہونے کو ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔

‎شاید ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ 20 ہزار سے زائد بلوچستان سے اغوا ہونے والے نوجوانوں ،بچوں اور عورتوں کا حال ان زندانوں میں کیا ہوگا ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیسے کسی انسان کے اندر کا انسان مرجاتاہےاور ایک انسان کے اندر ایک وحشی ،ظالم اور خونخوار جانور پلنے لگتا ہےجسے کسی ماں کی فریاد ،کسی بہن کے آنسوں اور کسی بیٹی کی معصومعیت نظر نہیں آتی ہے

‎آفتاب کی ماں کا حال کیا ہوگا یہ بات بس وہی ماں سمجھ سکتی ہیں جو اس قرب سے گزر چکی ہوآفتاب کی بہن کے احساسات اس کے آنسوں شاید فرزانہ مجیداور ماہرنگ جیسی بہن سمجھ سکتی ہیں۔آفتاب کی ماں جمال خاتون (جس نے اسے جنم دیا)اس وقت فوت ہو گئی جب آفتاب کو اس دنیا میں آئے چالیس دن ہو گئے تھے۔آفتاب نےجب سے ہوش سنبھالا ہےاس کیلئے اس کی ماں وہی ہےجس نے اسے پالاہے جس نے اسے ماں کا پیار دیا۔شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس ماں کی حالت کیا ہوگی جس نے کبھی اسے اس کے گزرے ماں کے بارے میں نہیں بتایا اور نا ہی خاندان میں کسی اور کو بتانے دیا تاکہ آفتاب کے زہن میں یہ بات کبھی نہ آئےکہ وہ بِن ماں کا بچہ ہیں

‎بلوچستان میں ایسی کئی مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے اپنے آنکھوں کے سامنے اغوا ہوتے دیکھی ہیں ایسی کئی مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھی ہیں آفتاب کی ماں بھی انہی میں سے ایک ہے۔بلوچستان وہ وطن ہےجہاں مائیں اپنے جوان گمشدہ بیٹوں کے انتظار میں ہر پل موت سے بد تر زندگی گزارتے ہیں اور جن کے بیٹےان کے پاس ہیں وہ اس پریشانی میں زندگی گزارتیں ہیں کہ ایک دن ان کے بیٹوں کو کوئی ان سے جبری اٹھاکرغائب نہ کردےاور جن کےجن کےجگرگوشےاٹھاکرلاپتہ کئےگئےہیں ان مائوں کوفکرلاحق رہتی ہےکہ کسی دن ان کےپیاروں کی مسخ لاش ہی انکو واپس نہ کی جائےاور کبھی تو عمر گزر جاتی ہےانتظار میں مگر وہ کبھی واپس نہیں آتیں۔ہم میں سے کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ وہ لوگ جو زندانوں میں ہیں کس حال میں ہیں۔ہم بس ان کے خاندان میں سے انکی بہن ،ماں ،بیٹی یا بھائی کو دیکھ کر انکو یاد کرتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں وہ ہنستے بھی ہیں تو ہم انکی ہنسی کو بھی افسوس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور یہ بات سچ ہے کہ ہم صرف افسوس کرنا جانتے ہیں کسی کے لئے آواز اٹھانا نہیں جانتے جب تک ہمارا کوئی اپنا ہم سے بچھڑ نہ جائے۔ہم بھول جاتے ہے کہ یہ آگ پورے بلوچستان میں لگی ہے اس آگ سے کوئی نہیں بچنے والا تو ہم کیوں اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ جب تک ہمارے لوگ سلامت ہیں ہم چپ ہی رہینگے آواز نہیں اٹھائینگے۔براہوئی میں کہاوت ہیں کہ “جنگل ٹی خاخر لگیک تو بارن پالن کل ئے ہشیک”(جنگل میں آگ لگتی ہے تو خشک اور تر سب ہی جلتے ہیں۔)

‎آگ لگتی ہےتو اسے بجھانے کے لئے بروقت کوشش کرنے میں ہی عقلمندی ہےورنہ آگ کچھ نہیں دیکھتی سب کچھ جلا دیتی ہے۔ہم اپنوں کے ڈر سے کہ کہیں انہیں کچھ نا ہو دوسروں کے لئے آواز نہیں اٹھاتے اور جب وہی ہمارے ساتھ ہوتا ہےتو ہمارے لئے بھی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔