ذاکر ابھی تک لاپتہ ہیں – عبدالواجد بلوچ

220

ذاکر ابھی تک لاپتہ ہیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

لاپتہ افراد کا معاملہ ایک سنگین مسئلہ ہے، یہ اٹل حقیقت ہے کہ جہاں ظالم و مظلوم کے مابین بقاء و شناخت پر نکتہ چینی ہو تو وہاں ظالم کا رویہ ہمیشہ غاصبانہ ہوتا ہے. بلوچستان میں جب قبضہ گیریت و حقوق کی جنگ اپنے عروج کو چھو رہا تھا، تو ظالم و غاصب قوتوں نے بلوچ سیاسی کارکنان سمیت تمام مکتبہِ فکر کے افراد کو اپنے شکنجے میں لینا شروع کیا۔ یہ اُس خوف کو دوام دینے کی ابتدائی روش تھی، جس سے ظالم و مظلوم کو خوف میں مبتلا کرکے انہیں پیچھے دھکیلنا چاہتا تھا کیونکہ دنیا میں حاکم کا محکوم کے ساتھ ہمیشہ یہی رویہ ہوتا ہے کہ کسی طرح محکوم کی زباں بندی عمل میں لائی جائے. حقوق و آجوئی کے لیئے اٹھی مضبوط تلاطم کو دبانے کے لئے بلوچستان میں پاکستانی حکمرانوں نے ہمیشہ شمشیر کا سہارا لیا لیکن دوہزار کے اوائل میں شروع ہوئی نظریاتی بنیادوں پر بلوچ جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے غاصب نے بلوچ سیاسی کارکنان کو لاپتہ کرنا شروع کیا۔

یہ سلسلہ اپنے عروج پر تھا کہ سیاسی کارکنان کو لاپتہ کرکے انہیں اذیت ناک سزائیں دے کر مفلوج حالت میں کبھی کرپٹ پولیس کے حوالے کرنا اور کبھی ویرانوں میں بازیاب کرکے انہیں چھوڑا جاتا تھا لیکن اس حربے کو اس وقت ناکامی کا سامنا رہا، جب بلوچ سیاسی کارکنان بازیاب ہوکر مزید تابناک انداز میں اپنی سرگرمیاں شروع کررہے تھے.غاصب کو اپنی پالیسیوں پر بدلاؤ لانا پڑا، تب اس جبر کی انتہاء شروع کی گئی جس سے بلوچ قومی تحریک کو نا ختم ہونے والے درد نصیب ہوئے.اس کرب و درد کا سلسلہ 8اپریل 2009 کو شروع ہوا۔ جس سے غاصب قوتوں نے بلوچ زمین پر Kill and Dump پالیسی کا ابتداء کیا لیکن اس بیچ بجائے بلوچ جُنز Back کرجائے الٹا اس میں شدت آ گئی 8 اپریل 2009 کو شہدائے مرگاپ کے غم سے بلوچ راج نڈھال تھا ہی لیکن تمام سیاسی کارکنان کو حوصلہ و ہمت اس وقت نصیب ہوئی۔ جب بلوچ تحریک کے افق پر شہدائے مرگاپ کی چہلم میں بی ایس او آذاد کے وائس چیئرمین سنگت ذاکر مجید کا تاریخی خطاب سننا پڑا. ہر نوجوان کے لب پر یہ نعرہ تھا “قدم بڑھاؤ ذاکر جان ہم تمہارے ساتھ ہیں” راقم از خود اس جلسے کا حصہ تھا، ایسا لگ رہا تھا عظیم انقلابی رہبران کی شہادت پر قوم مایوس ہونے کے بجائے مزید حوصلے کی چوٹیاں پار کررہا ہے اور سنگت ذاکر مجید ایک مسیحا بن کر اس قوم کو حوصلہ و ہمت نواز رہا ہے۔

سنگت ذاکر مجید کے ساتھ میرا قربت زمانہِ طالب علمی میں رہا، جب ہم دونوں لسبیلہ یونیورسٹی کے طالب تھے وہ انگلش ڈپارٹمنٹ اور میں میرین سائینس کی ڈپارٹمنٹ میں تھا اور اُس وقت میں بی ایس او آزاد لسبیلہ یونیورسٹی یونٹ کا انفارمیشن سیکرٹری تھا. سنگت ذاکر مجید کے ساتھ اکثر ہماری نشستیں اس وقت ہوتی تھیں، جب وہ یونیورسٹی آ کر سرکلز کا انعقاد کرتے تھے. میں نے اس میں ایک عظیم پائے کے انقلابی لیڈر کو پایا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں وہ پالیسیاں ہی نہیں کہ ہم اپنے عظیم سرمائے کو محفوظ کرسکیں، گو کہ وہ ایک اسٹوڈنٹ لیڈر تھے لیکن ان میں زمانہ طالب علمی میں وہ اوصاف تھے، جو ایک قوم کی رہنمائی بیک وقت کرسکیں اور ہمارا گمان اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیا، جب ہم نے سنگت ذاکر مجید کو شہدائے مرگاپ کے چہلم میں مند کے عظیم و شان جلسے میں دیکھا (اس بات کا مجھے قطعی طور پر افسوس ہے کہ ہم سے سیاسی غلطیاں ہوئیں، جب میں نے چند وجوہات کی بنیاد پر بی ایس او آزاد سے استعفٰی دیا، تو سنگت ذاکر جان نے مجھ سے براہِ راست رابطہ کرکے کہا کہ آپ استعفیٰ نہ دیں، ہم مل بیٹھ کر ان مسائل کو ڈسکس کریں گے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔!)

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

وہ وقت تھا اور آج کا وقت کہتے ہیں کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم قدم ہوکر محوِ سفر ہونا ہوگا. یہی وہ انداز تھا جس سے ایک مرتبہ پھر ہم زخموں سے چور چور ہوئے، افسوس و الم ہوتا ہی ہے کہ ہمیں اپنے سرمایہِ انقلاب کو محفوظ کرنے کا ہنر نہیں آتا بلکہ انہیں وقت کے تلاطم خیز موجوں کی نظر کرکے چھوڑ دینا ہمارا اندازِ کمزوری ہی ہے۔ جس سے 8 جون 2009 کو ہمیں ذاکر جان کی گمشدگی کی شکل میں نبرد آزما ہونا پڑا. یقیناً آج ان عقوبت خانوں میں ذاکر جان بھی آشوبِ بلوچستان کے لئے خواب دیکھ رہا ہے اور ہاں میں اس امر سے متفق ہوں ہی کہ وہ نڈر عظیم رہنماء اپنی ہمت اور حوصلے سے اذیت گاہوں میں دی ہوئی مظالم جبر کرب و اذیتوں کا سامنا خندہ پیشانی سے کررہا ہے کیونکہ وہ انہیں اس ہنر پر عبور حاصل تھا کہ سنگینوں، تکالیف و پریشانی و کرب کا مقابلہ کس طرح خندہ پیشانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے. آج بھی ہم اس امید کے ساتھ انتظار کی دہلیز پر سر رکھے منتظر ہیں کہ وہ دن آئے گا۔ جب سنگت ذاکر جان تمام بلوچ سیاسی لاپتہ کارکنان کے ساتھ تلاطم خیز موجوں کی طرح ان کی قیادت کرکے آئے گا اور ہمیں حوصلہ و ہمت بخشے گا۔