تیس جون: شہدائے میہی مشکے – ظفر بلوچ

484

تیس جون: شہدائے میہی مشکے

ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بہت سے مخلوقات پیدا کئے، جس میں انسان، حیوان، چرند، پرند، پہاڑ وغیرہ سب شامل ہیں۔ درج بالا مخلوقات سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیکر، خالق کائنات نے اعلیٰ درجہ دیا۔ اس میں شعورہے، یہ شعورہے، جس کے بدولت انسان دیگر مخلوقات سے بڑے درجات اور اعلیٰ نام عطاء ہوا۔ شعور سے انسان، حق وباطل، سچ وجھوٹ جائز اور ناجائز کا فرق علیحدہ علیحدہ پہچان لیتا ہے۔ شعور نہ ہوتا شاید انسانوں کو برائے نام انسان مانتے، شعور کے بغیر انسان بالکل نامکمل ہوتے اور دیگر مخلوقات سے اعلیٰ ہر گز نہیں ہوتے۔ یہ شعور کا برکت ہے کہ انسان اچھے اخلاق، زبان ایمانداری اور اچھے کردار کا مالک بنتا ہے۔ ایک بات پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے، کیا انسان پیدائشی طور پر شعور یافتہ ہوتا ہے یا شعور کی ابتداء ماں کے گود سے ہوتاہے؟ کوئی مانے یا نہ مانے شعور انسان کو پیدائش کے بعد ماں کی گود سے ملنا شروع ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہر شے سے واقفیت رکھتے ہوئے شعور یافتہ ہوتا رہتا ہے۔

شعور کے بغیر انسان دیگر مخلوقات سے الگ نہیں ہے، یہ شعور ہے آج ہمیں رنگ ونسل، ذات وپات اور انا پرستی سے دور رکھا ہے اور راہ راست پر چلنے کی درس دیتا ہے۔ شعور اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اسکی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا ہے۔ شعور سے سر شار قوموں نے تاریخ رقم کی ہے، مورخ آج ان قوموں کے ان نڈر ودلیر فرزندوں کو یاد کرتے ہیں، جنہوں نے شعوری طور پر اپنے قوم کو غلامی زندگی سے بچا کر ایک نئی زندگی بخشی ہے۔

اگر ان باشعور انسانوں نے بنی نو انسانیت کی بقاء کی لیئے جدوجہد نہیں کی ہوتی تو پھر شاید انسانی تاریخ اتنا وسیع نہیں ہوتا، یہ باشعور لوگوں کے جد وجہد کے ثمرات ہیں۔ جس سے لوگ اپنا آج قوم کی کل کے لیئے قربان کر رہے ہیں، اسی طرح آج میں بلوچستان کے پسماندہ ضلع آواران کے تحصیل مشکے کے ایک چھوٹی سی بستی کے حوالے سے چند الفاظ زیر قلم کرنا چاہتا ہوں۔

وہ بستی تحصیل مشکے کے سرداری شہر جیبری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب کوہ گجلی کے دامن میں واقع ہے۔ اس بستی کو لوگ میہی کے نام سے جانتے ہیں، یہ وہ بستی ہے، جہاں ایک بلوچ قومی لیڈر نے آنکھ کھولی۔ جس کا نام ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہے۔ موصوف کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے لیکن بلوچ قوم کی غلامی نے اس گھرانے سے تعلق رکھنے والے بلوچ فرزند ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کو آرام اور پر سکون زندگی گذارنے کا موقع نہیں دیا، دوران طالب علمی قومی غلامی کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی اور وقت کے ساتھ ساتھ دیگر دوستوں کے ہمراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد یعنی بلوچ طلباء تنظیم کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرتے ہوئے، پورے بلوچستان میں بی ایس او آذاد کو فعال کردیا اور بی ایس او جیسے عظیم تنظیم کو دیگر مفاد پرست ٹولوں کے ہاتھوں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہا۔

آج تک مفاد پرست ٹولے بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، بی ایس او کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایک پاکٹ تنظیم کے طور پر استعمال کررہے ہیں لیکن بی ایس او آزاد روز اول سے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر اللہ نظر، اختر ندیم بلوچ ،ڈاکٹر نسیم بلوچ، ڈاکٹر یوسف بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کراچی سے اغواء نما گرفتاری کے بعد لاپتہ کر دیا، تو بلوچ لیڈران کے اغوا نماء گرفتاری کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی جلسے جلوس شدت کے ساتھ جاری رہے۔ وقفے وقفے سے مغویوں کی بازیابی مرحلہ وار ہوئی، جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر کا سراغ تک نہ ملا، آخر کار دوستوں نے
ڈاکٹر صاحب کی عدم بازیابی کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے، احتجاج شروع کیا، اس طویل بھوک ہڑتال نے ریاست کا جینا دوبھر کردیا اور آخرکار ڈاکٹر اللہ نذر کا سراغ ڈیرہ اسماعیل سے ملا۔

ڈاکٹر صاحب کو نیم مردہ حالت میں کوئٹہ ہدہ جیل منتقل کردیا گیا، کسی کو یہ گمان نہ تھا کہ موصوف زندہ بچےگا، اسی طرح پیشی پر پیشی، ایک بار پھر کوئٹہ تربت سنٹر جیل منتقل کیا گیا۔ وہاں زہر بھی پلایا گیا لیکن اللہ کے فضل وکرم سے زندہ بچنے میں کامیاب رہا۔ اگلے روز بلوچستان کے چیف جسٹس امان اللہ خان یاسین زئی سنٹر جیل تربت گئے، وہاں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملاقات کی اور چند دن بعد ڈاکٹر صاحب رہا ہوئے۔ آج تک بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بلوچ قومی جنگ آزادی کی جنگی کمان سنھبال رہ ہیں۔

اس طرح میہی کے اس چھوٹی بستی سے ایک اور بلوچ فرزند نے 9 جون 1981 کو سلیمان عرف شہیک بلوچ کی صورت میں واجہ محمد حسین کے گھر مشکے میہی میں آنکھ کھولا اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک سن 1996 میں ہائی سکول جیبری سے پاس کرتے ہوئے مزید علم کی پیاس بجھانے کے لیئے سنہ 1998ء کو ڈگری کالج خضدار سے ایف اے پاس کیا۔ ایک محنتی طالب علم کی حثیت سے دن رات محنت کرتے ہوئے بی اے ڈگری کالج خضدار سے پاس کیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے اخراجات پورے نا کرنے کی وجہ سے مزید تعلیم کو خیرباد کر دیا اور 2005 کو بلوچ قومی پارٹی بی این ایم میں شمولیت اختیار کی۔

وہ شورش زدہ مشکے میں اپنے دیگر دوستوں کی ہمراہی میں گھر گھر گاؤں گاؤں بلوچ نیشنل موومنٹ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ مشکے میں شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے شہید شیہک بلوچ کو دیگر سیاسی ورکروں کی موجودگی میں مشکے زون کی زمہ داری سونپی، اسی طرح موصوف کا یہ سیاسی سفر جاری رہا اور جلد ہی وہ بلوچ لبریشن فرنٹ میں بطور علاقائی کمان منتخب ہوئے، وہ گوریلا جنگ میں کافی مہارت رکھتے تھے۔

دشمن ہروقت شہید شیہک کا پیچھا کیا کرتا تھا، شیہک ایک خوش مزاج انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاموش مزاج انسان بھی تھے، درجہ بالا صلاحیتوں کی وجہ سے شیہک بلوچ کو عوام کے اندر کافی پذیرائی حاصل تھی اور اپنے عوام سے قربت رکھنے کے ساتھ ساتھ مہرومحبت کرتے تھے۔

30 جون 2015 کے علی الصبح سکیورٹی فورسز نے ایک بڑی تیاری کے ساتھ بستی میہی کو رات کی تاریکی میں گھیرے میں لے لیا اور شیہک جان کی گرفتاری کے لیئے اپنے تمام حیلےوحربے زیر استعمال لائے، لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔ صبح فورسز اور بلوچ سرمچاروں کے مابین دوبدو جنگ کا آغا ہوا، دونوں جانب مارٹر اور گولوں کی آواز سے پورے مشکے گونج اٹھا، کئی فورسز اہلکار دوران جنگ ہلاک ہوئے، فورسز کو ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد دوبار خضدار اور کوئٹہ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بڑے پیمانے پر نئے فوجی دستے منگوائے گئے۔ اسی طرح زمینی اور فضائی شیلنگ سے سلیمان عرف شیہیک جان ،کے ساتھ ماسٹر سفر خان ڈاکٹر اللہ نظر کی بڑے بھائی، محمد رمضان محمد، رفیق ،ظہیر جان ، زاکر جان ، فرھاد جان ، خدانظر ، گاجی خان، اود شاہ فیصل جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے جیبری کے شہداء قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں ـ