ماؤں کے عالمی دن پر بلوچ ماؤں کا الم – محراب بلوچ

304

ماؤں کے عالمی دن پر بلوچ ماؤں کا الم

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

یومِ ماں یعنی ماؤں کاعالمی دن سال میں ایک دن منایا جاتا ہے کہ ہر فرزند اپنی ماں کی محبت کی افادیت کو اچھی طرح جان لے، ماں کی محبت کو کوئی بدبخت فرزند ہی بھول سکتا ہے، سال کے 365 دنوں میں ماں کی محبت سے ایک دن بھی خالی نہیں ہوسکتا، ماں کی محبت ہر وقت، دن رات شب روز، یاد رہتی ہے، ماں کی محبت کم ہونے والی شے نہیں ہے، ماں دنیا کے رشتوں میں واحد رشتہ ہے، جو سب رشتوں میں سر فہرست اور بے غرض ہے۔

اگر آج کوئی فرزند اپنی ماں کو سال کے باقی ایام میں فراموش کردے، ماں کی محبت کو نظر انداز کردے، تو اس فرزند کیلئے مئی کا دوسرا اتوار بھی مناسب نہیں کہ وہ ماں کو یاد کرے کیونکہ محض اسی دن یاد کرنا روایت ہےـ

عالمی سطح پر ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ماوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کا آغاز ایک امریکی خاتوں اینا ہاروس کی محنت کی نتیجے سے ممکن ہوا، اس دن کی مناسبت سے امریکی صدر ووڈ روولسن نے 8 مئی 1914 کو سرکاری طورپر مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کی عالمی دن قرار دیا۔ اس دن ماں کو اپنی محبت کی احساس دلانا، ماں کو خوش رکھنا، اس دن میں ماں کو تحائف وغیرہ دینا روایات ہیں۔ بہت سے ممالک میں ماں، کو لیکر اچھی اچھی جگہوں میں سیر کرواتے ہیں، بڑے بڑے رستیورانوں میں، خوبصورت پارکوں میں اچھی خوبصورت نظاروں میں لے جاتےہیں ـ

لیکن ان محکوم اقوام کے ماؤں پر کیا گذرتی ہے، جو سالہا سال، اپنے فرزندوں کو نہیں دیکھ پاتے، وہ فرزند جو وطن کے باغی ہیں، وہ اپنی ماؤں کو کیا تحائف دیتے ہیں؟ یا وہ سرمچار جو بولان کی اونچے پہاڑوں میں، سیاہجی کے دلبند میں اپنی مادرِ وطن کی خاطر زندگی کے تمام راحتوں سے مفرور ہوکر گمنام زندگی گذار رہے ہیں، وہ اپنی ماؤں کو کیا تحائف دلاینگے؟

بلوچستان بھی دنیا کا ایک حصہ ہے، بلوچ ماؤں کا کیا حال ہے اس دن کے مناسبت سے؟ وہ ماں جو اپنے پیاروں کو نصف دہائیوں تک نہیں دیکھتے، اُن پر کیا بیتتی ہے، اور وہ ماں جو اپنی بیٹوں کی لاش تک اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے، اُن پر کیا بیتے گی؟ یا وہ فرزند جو ظالم کے ہتھے چڑھ کر سالہا سال زمینی خداؤں کے بنائے جہنم میں روز مر رہے، اذیتیں سہہ رہے ہیں، وہ فرزند اپنی ماؤں کو یومِ مادر کے دن کیسے خوش رکھ سکیں گے ؟

ان ماؤں کا کیا حال ہوگا، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر روز مرتے ہیں، جب وہ کسی کی بازیابی کی اطلاع سنتے ہیں تو جی اٹھتے ہیں اور ہر ایک لاش کی خبر سن کر خود لاش بن جاتے ہیں۔

یہاں مجھے ایک ماں کا قصہ یاد آرہا ہے، جس کے دو بیٹوں کو اسکے سامنے بھری نیند سے اٹھا کر فوج نے اغواء کرلیا اور پھر کچھ مہینوں بعد ایک جعلی مقابلے میں انہیں شہید کرکے کہا گیا کہ وہ دہشتگرد تھے، مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ اس دن کے بعد اس ماں نے اپنے تیسرے بیٹے کو خود ہی لڑنے کیلئے پہاڑوں پر بھیج دیا، تاکہ نیند کی حالت میں کچھ نا کرکے، دوسرے دو بیٹوں کی طرح، بے گناہ مارے جانے کے بجائے، مادر وطن کیلئے کچھ کرکے شہید ہوجائے بہتر ہے۔

اس ماں نے 2012 سے لیکر آج تک اپنے تیسرے بیٹے کو نہیں دیکھا ہے، وہ ماں آج ماوں کے عالمی دن کے موقع پر کیا سوچتی ہوگی۔ وہ بس اپنے بیٹے سے دور رہنا چاہتی ہے، حتٰی کہ موجودہ دورِ جدید میں ٹیلفون پر بات تک نہیں کرسکتی ـ

ماوں کا عالمی دن جہاں ہمیں ماں کے آفاقی محبت سے روشناس کراتی ہے، وہیں اس دن میں بلوچ ماوں کا وہ درد بھی چھپا ہے، جن کیلئے ہر دن روز حشر کی طرح گذرتا ہے۔