طالبان 16 برس سے جاری لڑائی سے تھک چکے ہیں

212

افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں 16 برس سے جاری لڑائی سے عسکریت پسند اب تھک چکے ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ طالبان امن مذاکرات کیلئے رضامند ہو جائیں۔

تاہم اُنہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے ثمرات ظاہر ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔

اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔

امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ طالبان کی تمام تر قیادت کی طرف سے مذاکرات پر آمادہ ہونا ابھی بعید القیاس ہے۔ تاہم طالبان میں سے کچھ گروپ امن مذاکرات میں حقیقی دلچسپی ضرور رکھتے ہیں۔

بعض ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موسم بہار کے شروع ہونے کے ساتھ عسکریت پسندوں کی کارروائیاں ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہیں۔ تاہم جنرل نکلسن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی پیش بندی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود امریکی افواج کیلئے دستیاب فوجی وسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے سفارتی کوششوں کو دھچکہ لگے گا۔

تاہم افغان گروپ آف نیوزپیپرز کے چیئرمین اور معروف افغان تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے  کہا کہ  جنرل نکلسن کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ سے وہ خود مایوس ہو چکے ہیں اور امریکہ کسی بھی اعتبار سے عسکریت پسندوں کے ساتھ معاملات طے کر کے اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر حسین یاسا نے کہا کہ طالبان کی طرف سے فی الحال مزاکرات کی پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ صرف طالبان کے لیڈر ذبیح المجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فی الوقت مزاکرات کی دعوت کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔

ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ طالبان کے رد عمل میں فرق صرف اتنا ہے کہ اُس نے اس بار ماضی کی طرح ہاں یا ناں کہنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اس بار فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لینا چا رہے ہیں۔