مٹی کا فرض نبھا کر چلے _ تحریر: سیف بلوچ

387

ویسے تو ہر کوئی اپنے کردار کی وجہ سے جانا جاتا ہے، کچھ مثبت کردار والے اور کچھ منفی کرداد۔
مثبت کردار کے مالک مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور منفی کردار والے سے ہر کوئی بیزار ہوتا ہے، منفی کردار والا مرنے کے بعد مٹ کر ختم ہو جاتا ہے۔

سنا ہے ایک ایسی دھرتی پر بہت سے کردار رہا کرتے ہیں، جہاں ہر وقت ظالم قوتوں نے اپنی طاقت آزمائی ہے لیکن ان کرداروں کی وجہ سے ظالم قوتوں کو ہر وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس دھرتی پر یہ کردار وطن وہ سچے عاشق ہیں جنہوں نے کبھی بھی اسے گرنے نہیں دیا، خود موت کو خوشی سے گلے لگایا لیکن دھرتی ماں کو ظالموں کے ہاتھ نہ لگنے دیا۔

اس مقدص زمین کا نام “بلوچستان” ہے

اس سرزمین پر بسنے والے وطن کے عاشقوں نے اسے ہر وقت ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کیا ہے جو اسے ہڑپنا چاہتے تھے۔

آج بھی ظالم قوتوں نے اپنے خونی پنجے اس دھرتی پر گھاڑے ہیں اور اپنی طاقت آزما رہے ہیں لیکن یہاں وہ کامیاب نہیں ہونگے، اس زمین کے سچے عاشق ظالموں کو کبھی بھی ان کے مقاصد میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے، وہ خود کو قربان کریں گے لیکن دھرتی ماں پر آنچ تک نہ آنے دیں گے۔

اِس سرزمین کے وارث اور وطن کے سچے عاشق آج بھی دھرتی ماں کو آزاد کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، اپنے خون سے مادر وطن کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ کے بچے ان ظالموں کی قید سے آپ کو آزاد کر کے رہیں گے۔

آج ایسے بہت سارے وطن کے عاشق ہیں جنھوں نے اپنا گھر بار، ماں، باپ، بیوی، بچے، یہاں تک کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے وطن کی دفاع کے لئے پہاڑوں کا رُخ کیا ہے۔
کیا ان وطن کے عاشقوں کو اپنی زندگی پیاری نہیں، کہ اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی، بچوں کے ساتھ رہ کر ایک پُر امن و پُر سکون زندگی گزاریں؟
لیکن پُر امن و پُر سکون تب ہی رہیں گے جب سرزمین آزاد ہوگا۔

آئے روز فوجی آپریشنز، چادر و چار دیواری کی پامالی، اغواء نما گرفتاری، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں، عورتوں اور بچوں پر تشدد، گھروں کو جلانا، نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنا، اسکول و ہسپتالوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنا۔

ضمیر تو جاگے گا ہی،

اس ظلم کے خلاف سر پر کفن تو باندھنا ہی پڑے گا۔

اگر ہم نے اپنا آج اس سرزمین کے کل کے لئے قربان نہ کیا تو یہ زمین ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

یہ سوچتے ہوئے گلزمین کے دو سچے عاشق “دلجان اور بارگ” سر پر کفن باندھ کر وطن کے ہزاروں جان نثاروں کی جانب نکل پڑے،
ہر مقام پر دشمن کو شکست دیا، قوم کو اس ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہو کر لڑنے کا درس دیا۔

دشمن ان کے اس کردار سے بھوکلا گیا، عورتوں اور بچوں کو اپنا نشانہ بنانے لگا،
دلجان اور بارگ نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر کہا کہ تم ہمارے عورتوں اور بچوں کو اغواء کر کے ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے، ہم آخری گولی تک تم سے لڑتے رہیں گے اور تمھیں بھاگنے پر مجبور کریں گے، ہم دنیا کے سامنے تمھاری بزدلی دکھا کر رہیں گے۔

اک صبح
دلجان اور بارگ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سوکھی روٹی کھا رہے تھے کہ اچانک
ایک ساتھی یہ خبر لے کر پہنچا کہ دشمن نے زھری کے ایک بستی کو گھیرے میں لیا ہے اور کئی بلوچ فرزندوں کو اغواء کیا ہے۔

وطن کے عاشقوں نے سرزمین کی دفاع میں دشمن کو شکست دینے کیلئے، سوکھی روٹی چھوڑ کر، توپک (بندوک)اپنے کندھوں پر اٹھا کر نکل پڑے

تین گھنٹے تک زبردست لڑائی چلتی رہی،

دلجان اور بارگ بہت بہادری سے لڑتے رہے، یہ دونوں دشمن کے قریب آکر ان سے لڑنے لگے، دشمن ان دونوں کی بہادری دیکھ کر خوف میں مبتلا ہوگیا، کئی اہلکار ہلاک ہوگئے۔

لڑتے لڑتے دلجان اور بارگ کے توپک کی گولیاں ختم ہونے لگیں، دلجان نے بارگ سے کہا کہ “دیکھ دوست اپنی تو گولیاں ختم ہونے والی ہیں اور ساتھی ہم سے دور ہیں اور ہم دونوں دشمن کے بھی بہت نزدیک ہیں، کچھ بھی کر کے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے تو نہیں کرنا ہے”۔ بارگ کہنے لگا “ہاں دوست ایک ایک گولی توپک میں بچا کر رکھیں گے، اپنے آپ کو مارنے کے لئے، یہی آخری راستہ ہے”۔

اور اس طرح گلزمین کے دو سچے عاشق “دلجان اور بارگ” اپنی آخری گولیوں کو اپنے جسم میں اتار کر ہمیشہ کے لیئے امر ہوگئے اور دھرتی ماں کی خاطر قربان ہوکر اس مٹی کا فرض نبھا کر چلے۔