نیشنل پارٹی اعلانیہ طور پر بلوچ تحریک کے خلاف پاکستان کا شریک کار ہے: بی ایل ایف

588

نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے گزشتہ روز اپنے ایک پریس ریلیزمیں بلوچستان لبریشن فرنٹ اوربلوچ آزادی پسندرہنماڈاکٹراللہ نذر بلوچ کے خلاف جوالزام تراشی اورزہرافشانی کی ہے اس کاجواب دیناضروری نہیں تھا تاہم اس نے بلوچ دانشوروں اور اہل فکر کو بعض نقاط پربحث کی دعوت دی ہے، اس لیے این پی ترجمان کے الزامات اوراس کے اٹھائے گئے نقاط پراپنے نقطہ نظر کو بیان کرنا بی ایل ایف مناسب خیال کرتاہے۔

این پی ترجمان نے پہلا الزام یہ لگایا ہے کہ ” ڈاکٹراللہ نذر اپنے زمانہ طالبعلمی سے نیشنل پارٹی کی لیڈرشپ کے ساتھ کینہ وبغض رکھتا ہے اور اللہ نذرکانیشنل پارٹی کے ساتھ ذاتی طورپر کینہ رکھناہی بی ایل ایف کی جانب سے باربارنیشنل پارٹی کو نشانہ بنانے کی وجہ ہے”۔ نیشنل پارٹی ترجمان کایہ الزام اپنے آپ انتہائی سطحی،ناپختہ اور بددیانتی پرمبنی ہے۔ جو لوگ نیشنل پارٹی کی قیادت کررہے ہیں ان میں سے بیشترکے ساتھ ڈاکٹراللہ نذرکے ذاتی تعلقات خوشگوار اور دوستانہ رہے ہیں مگر کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی،کینہ و بغض کبھی نہیں رکھااورنہ این پی کسی کے ساتھ ذاتی کینہ و بغض کو ثابت کر سکتاہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بی ایل ایف بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک سنجیدہ قومی تنظیم ہے جو بطور ایک قومی ادارہ کام کرتاہے۔ وہ کسی فرد ،پارٹی،خاندان اور گروہ کے ساتھ ڈاکٹر اللہ نذر یا کسی اور رہنما کی ذاتی دوستی یادشمنی،پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی بنیادپر پالیسیاں بناتا اور اہداف مقررنہیں کرتاہے بلکہ بلوچ قومی مفاد اور قومی آزادی کی جانب تحریک کی پیشرفت کے تقاضوں کومدنظررکھ کرہی بی ایل ایف پالیسی بناتا اور اہداف کاانتخاب کرتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل پارٹی اور بی ایل ایف کے گہرے اورواضح سیاسی اختلافات ہیں اوراس سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدلنے میں پہل نیشنل پارٹی نے کی ہے۔ بی ایل ایف نے تو بلوچستان پرپاکستان کی جبری قبضہ کے خلاف قومی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی ہے اوراس جدوجہدمیں پاکستانی قابض افواج،عسکری و خفیہ ادارے اور ان کے شریک کارہی اس کی کارروائیوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس جدوجہدآزادی میں ایک فریق بلوچ قوم اورسرمچار ہیں اور دوسرا فریق پاکستان اوراس کے مسلح افواج سمیت دیگرسکیورٹی وخفیہ ادارے اوران کے شریک کارcollaborators ہیں۔ اس صف بندی میں نیشنل پارٹی صاف اور اعلانیہ طورپر بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان آرمی اورخفیہ اداروں کے ساتھ سیاسی،سفارتی اور عسکری محاذوں پر بطور شریک کار collaborator شانہ بہ نشانہ کھڑی ہے۔

نیشنل پارٹی کے ترجمان،اس کے صدر حاصل بزنجو،سابق صدر ڈاکٹر عبدالمالک سمیت کئی رہنما متعدد بار میڈیا کے سامنے اس بات کا فخر یہ اقرار کرتے رہے ہیں کہ این پی بلوچ مسلح تحریک کے خلاف فوج اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ایک ہی صفحہ page پر ہے۔ وہ خود بلوچ قومی تحریک آزادی او ر عوام کے خلاف ریاستی عسکری اداروں کی وحشیانہ کارروائیوں کا سہرا اپنے سرپرباندھ رہے ہیں اوردوسری جانب الزام لگا رہے ہیں کہ بی ایل ایف نیشنل پارٹی کو اْن کے ساتھ ڈاکٹراللہ نذرکے ذاتی بغض کی وجہ سے نشانہ بنارہاہے۔

نیشنل پارٹی ترجمان نے سوال کیاہے کہ “نیشنل پارٹی”1997 سے 2013 تک اپوزیشن میں تھا تو پھر اس کے بعض رہنماؤں کو کیوں قتل کیاگیاہے ؟” اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ اکتوبر2003 سے پہلے نیشنل پارٹی کا وجود ہی نہ تھاتوایسی جماعت جس کا وجود ہی نہ ہو اس کے ساتھ دوستی یادشمنی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔ رہی اپوزیشن میں ہونے کا دعویٰ تو اس کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں ہے۔ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز شرف نے اقتدار پر اپنے غاصبانہ نظام کو دوام دینے کیلئے جب نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تو اس نظام کے تحت اس وقت کا بلوچستان نیشنل موومنٹ مقبوضہ بلوچستان میں فوج کاسب سے بڑاپارٹنر بن کر اُبھرااور اسی پارٹنرشپ سے خوش ہوکر فوج نے مقبوضہ بلوچستان میں اپنے شریک کارcollaborators کو نیشنل پارٹی کی صورت میں یکجا کردیا۔ جولائی 2004 میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف سائیجی،تلار،دڑامب اور مزن بند کے پہاڑی سلسلوں میں پہلا فوجی آپریشن نیشنل پارٹی کیچ اورگوادرکے ضلع ناظمین کی درخواست اور مشورہ پر کیا گئی۔

نیشنل پارٹی کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ “نیشنل پارٹی پْرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ وہ سیاست میں تشدد کے خلاف ہے۔ صرف حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا جا رہاہے جبکہ حکومت میں شامل دوسری قوتوں کو نشانہ نہیں بنایاجاتاہے”۔ حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو نیشنل پارٹی کے یہ دعوے بھی دروغ ہی ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دینا،بلوچ نسل کشی کی حدوں کو چْھونے والی فوجی آپریشنز میں فوج و دیگر سیکورٹی اداروں کے ساتھ ایک صفحہ page پر ہونا کسی بھی لحاظ سے امن پسندی کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان کے نام پر کالے قوانین بنانے میں شریک ہونا، حکومت میں شریک ہوکر فوج و خفیہ اداروں کی خواہش کے مطابق کالے قوانین بنانا،فوجی کارروائیوں کیلئے وسائل اور احکامات دینا، نہ صرف یہ بلکہ سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں ،مسخ شدہ لاشوں،گھرواملاک کو جلانے اور لوٹنے،جبری نقل مکانی پر بلوچ عوام کو مجبور کرنے والی غیر انسانی اجتماعی سزاؤں کی براہ راست اور بالواسطہ حمایت کرنے جیسے جنگی جرائم کو کیسے پُرامن جدو جہد کہاجاسکتاہے؟

اپریل 2015 میں چینی صدر کے دورہ کے بعد سی پیک جیسے سامراجی استحصالی منصوبے کی تکمیل کو یقینی بنانے کیلئے جون 2015 میں اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک کے زیرصدارت ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وسیع پیمانے کے خونی کارروائیوں کو حتمی شکل دے کر” پْرامن بلوچستان پروگرام ” جیسا دلکش نام دیا گیا۔پْرامن بلوچستان پروگرام کے تحت بیسیمہ سے گوادر تک سی پیک شاہراہ کے نزدیک پڑنے والی بے شمارآبادیوں کوفوجی کارروائیوں کے ذریعے نیست ونابود کرکے ہزاروں بلوچ خاندانوں کونقل مکانی پرمجبورکیاگیاہے۔

حالیہ دنوں 22نومبر2017 کو کیچ آرمی ہیڈکوارٹرتربت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ثناء 4 زہری،این پی کے ڈاکٹر مالک،سدرن کمانڈکے کورکمانڈر سمیت اعلیٰ سطحی عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اسی اجلاس میں بلوچ تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے پورے بلوچستان خصوصاً مکران،جہلاوان اور سرا وان میں سوات طرز کے ایک نئے سخت فوجی آپریشن کی تجویز دی گئی اور اگلے روزسدرن کمانڈہیڈکوارٹر کوئٹہ میں پاکستان آرمی کے سربراہ کی زیرصدارت اجلاس میں بلوچ عوام کے خلاف ایک نئے خونی آپریشن کو”خوشحال بلوچستان منصوبہ ” کے نام سے حتمی شکل دی گئی۔ اس پرعملدرآمدکا آغاز یکم دسمبر کو مشکے،راغے اور گچک میں بڑے پیمانے کی زمینی اورفضائی آپریشن کی صورت میں کیاگیاہے جس میں اب تک ایک خاتون اور بچی سمیت ایک درجن سے زائدبلوچ فرزندوں کو شہید کیاگیاہے ۔ڈاکٹراللہ نذربلوچ کی دو بہنوں کو ان کے بچوں،پوتوں ،نواسوں سمیت ایک سو سے زائدباعزت خواتین کوفوجی کیمپوں میں منتقل کی گئی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں مقیم مال مویشی پالنے والے سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کو تباہ کرکے انھیں شہری علاقوں میں نقل مکانی کیلئے مجبور کیاجارہاہے جہاں ان کیلئے نہ رہائش ،نہ مال مویشیوں کیلئے چراگاہیں اورنہ کوئی روزگار کاذریعہ ہے۔

اب دشت،گوادر،میرانی ڈیم اورحْرکے علاقوں میں بڑی تعدادمیں فوج جمع کی جارہی ہے جن کا ہدف دشت،سائیجی،تلار،دڑامب اور مزن بند کے عوام ہونگے۔ایسی حکومت میں شامل ہونا جو بلوچ عوام کے خلاف ایک جارحانہ جنگ لڑرہی ہے کسی طرح پْرامن سیاست نہیں کہلایا جاسکتا۔جہاں تک فوج کی کٹھ پتلی حکومتوں میں شامل دوسرے عناصر کے ساتھ نرمی برتنے کا الزام ہے تووہ سراسر غلط ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ نواب مگسی،جام یوسف،اسلم رئیسانی اورثناء زہری سمیت متعدد collaborators پر سرمچاروں نے حملے کئے ہیں۔ اگر نیشنل پارٹی زیادہ نشانہ بنتا رہاہے تو یہ ان کی زیادہ شرکت کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ “حصہ بقدرجثہ ” جس سی پیک کو نیشنل پارٹی بلوچ قوم کی ترقی کہتا ہے اس کے بارے میں این پی کے اپنے صدراورپاکستان کے وزیربرائے پورٹ اینڈ شپنگ حاصل بزنجو نے سینٹ کو بتایا کہ گوادر پورٹ کی کل آمدنی کا91 فیصد چین کو اور9 فیصد پورٹ اتھارٹی کو ملے گااوریہ 9 فیصد بلوچوں کونہیں بلکہ قابض پاکستان کوملے گا،وہ بھی منصوبے کی تکمیل کے نو سال بعد ملنا شروع ہوگا۔ حاصل کا یہ بیان 25 نومبر2017 کو ڈان میں شائع ہوئی ہے اوراسلام آباد میں چینی ہائی کمیشن کے ڈپٹی چیف نے اسلام آباد میں منعقد سی پیک میڈیا فورم کے تیسرے سالانہ اجلاس کے موقع پرحاصل بزنجو کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ پاکستان کو گوادر پورٹ اتھارٹی کی کل آمدنی کانوفیصداورگواد اورفری اکنامک زون کی آمدنی کا پندرہ فیصد حصہ پاکستان کوملے گا۔ “اسی کو کہتے ہیں مال مفت دل بے رحم”۔جبکہ بلوچوں کے حصہ میں صرف بے دخلی ہی آئے گا کیونکہ گوادرشہر کی تقریباً70/80 ہزارکی آبادی کے مقابلے میں اس وقت گوادرمیں پانچ لاکھ چینی آبادکاروں کیلئے زمین قبضہ کیاگیاہے۔ گوادر کے بلوچ تو ایک ایک بوند پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔ انھیں تو پیاس ،بھوک اور روزانہ چھاپوں کے ذریعے نقل مکانی پر مجبورکیاجارہاہے۔ اس لئے بی ایل ایف سی پیک کو ایک غیر قانونی استحصالی منصوبہ کہہ کراس کیخلاف مزاحمت کررہاہے۔ سی پیک منصوبوں پرکام کرنے والوں اوران کے محافظوں پر حملے کرتا ہے جسے ریاستی پابندیوں میں جکڑی ہوئی میڈیااورنیشنل پارٹی جیسے فوج کے دلال نسل پرستی،تنگ نظری اورمزدوروں کو نشانہ بنانے کا گمراہ کن نام دیتے ہیں۔ بی ایل ایف ایسے مسائل پر کھل کربحث کرنے کیلئے تیار ہے مگرہمیں شک ہے کہ نیشنل پارٹی بحث کے نام پرقوم دوست بلوچ دانشوروں،قلمکاروں،شاعروں،ادیبوں اورصحافیوں کوایکسپوزکرناچاہتاہے تاکہ فوج اورخفیہ ادارے باآسانی انھیں ہدف بناکرراستے سے ہٹاسکیں

دریں اثناءبلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کی شام سرمچاروں نے جھاؤ بیلہ کراس کے قریب آر سی ڈی شاہراہ پر دو ٹرکوں کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا۔ یہ ٹرک بلوچستان کی معدنی وسائل کو لادھ کر کراچی جارہی تھیں۔ اس سے پہلے بھی ان گاڑیوں پر حملہ کرکے تنبیہ کی گئی تھی کہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں پاکستانی کمپنی اور ٹھیکیداروں کا ساتھ نہ دیں مگر گاڑی مالکان بدستور پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہے۔ بلوچستان کی معدنیات کی لوٹ مار میں شریک ٹھیکیداروں سمیت گاڑی مالکان جو قومی وسائل لوٹنے میں شامل ہیں اگر باز نہ آئے تو جانی و مالی نقصان کے ذمہ دار خود ہونگے۔