میری مٹی میرا عشق __مہر میر

1066

سارنگ کہاں ہو۔۔۔ دیکھو۔۔! آج کیا شکار کرکے لایاہوں ۔۔۔میرے کانوں میں بابا کی آوازپڑتے ہی میں چونک گیااوردوڑا بابا کی جانب ۔۔۔با با کے کندھے پر لٹکی بندوق اور ہاتھوں میں ایک خرگوش تھا ۔۔۔۔ میں بابا کے قریب پہنچ کرچلانے لگا ۔۔۔اوو۔۔ دیکھو کیسا ہے یہ۔۔۔ میں ڈر ڈر کے اسے چھورہا تھا ۔۔۔اور خوشی سے اچل رہا تھا۔۔بابا بندوق کندھے سے اتار کر ماں کو دیتے ہوئے کہا کہ میرے وضو کے لئے پانی گرم کر لو جب تک میں خرگوش کی کال اتار کر اسکا گوشت بنا کر لاتا ہوں ۔۔۔بابا مجھے آوازدی سارنگ چلو میرے ساتھ ۔۔میں بابا کے گرد دوڑ دوڑ کر خرگوش کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوئے جارہا تھا ۔۔۔بابا گدان کے باہر ایک اونچی جگہ پر بیٹھ کر خرگوش کا گوشت بنا نے لگا ۔۔میں باربار بابا سے پوچھے جارہا تھا۔۔بابا کیسے مارا اسے ۔۔۔۔بابا میرے سوالوں کا جواب دیے جارہا تھا ۔۔اور میری خوشی سے لطف لے رہا تھا ۔۔۔اور وہ کہہ رہا تھا کہ کنا مار جب تم بڑے ہوگے تو تم بھی میر ی طرح شکار کھیلو گے ۔۔۔میر ی بندوق تماری ہے ۔۔یہ علاقہ تمارا ہے ۔۔اس کے خرگوش ۔۔چکور ۔۔سیسوسب تمارے ہیں ۔۔ بابا کی باتوں سے مجھ میں جیسے طاقت کے سرچشمے پوٹ رہے تھے ۔۔۔دیر تک ایسی سوالوں سے بابا کیساتھ مکالمہ جاری رہا ۔۔بابا کی باتیں مجھے شکار کیساتھ ساتھ اپنے علاقے سے مانوس کرتی جارہی تھیں ۔۔۔مجھ میں اپنے علاقے سے محبت حب اور مہر بڑھ رہاتھا ۔۔۔۔وقت تھا کہ گذر رہاتھا یا میری پرورش اور اس خمیر سے میرا رشتہ پختہ کیا جارہا تھا ۔۔۔بابا کی اپنے علاقے سر زمین سے رشتہ دیکھ کر مجھے اپنی دھرتی سے جیسے عشق ہوئے جارہا تھا ۔۔۔۔بابا روز ایک ٹیلے پر بیٹھ کر دوربین سے اپنے علاقے کا جائزہ لیتا ۔۔۔میں سوچتا کہ بابا کیا دیکھتا ہے ۔۔۔۔اسے آخر کیا خوف ہے ۔۔۔ میں پوچھتا بابا آپ روز اس خیر میں ان پہاڑوں کی جانب دور بین سے کیا دیکھتے ہو ؟؟ کیا خرگوش ڈھونڈتے ہو ؟؟ وہ ہنستا کہتا نہیں کنا مار ۔۔۔یہ ہمارا علاقہ ہے ۔۔اسکی حفاظت ہم پر فرض ہے ۔۔میں روز دیکھتا ہوں کہ کون ہمارے علاقے میں آتا ہے ۔۔کیا کرتا ہے کس نیت سے آتا ہے ۔۔۔ہمیں غیروں کی اپنے علاقے میں آمدورفت اور نقل و حرکت سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔اگر کوئی ہمارے علاقے میں سے گذرتے وقت راستہ بھٹک جائے اسکی رہنمائی ہم پر فرض ہے اگر کوئی ہمارے علاقے میں مد د کا طلبگار ہو اس کی مدد ہماری زمہ داری بنتی ہے اور اگر کوئی کسی نقصان کی غرض سے ہمارے علاقے میں داخل ہو تو اسے ماربھگانا ضروری ہوتا ہے ۔۔کنا مار یہ علاقہ ہمارے ننگ کا محافظ ہے ۔۔ہمارے اقدار کا امین ہے ۔۔۔ہمارے معاشی کفالت کا زمہدار ہے ۔۔۔ہماری خمیر اس سے ہے ۔۔یہ ہماری ماں ہے ۔۔اس کی ہواہیں اسکے پہاڑ اسکے رنگ اسکے چشمے سب ہمارے اثاثہ اور ہماری زندگی ہیں ۔۔۔۔یہ ہمیں زندگی دیتے ہیں انکی حفاظت ہماری بقاءہے ۔۔۔بابا رات کو گدان کے سامنے لگی آگے کے پاس بیٹھتا تو میں اسکی گود میں جاکر بیٹھ جاتا ۔۔۔اور بابا سے کہتا کہ بابا مجھے کہانی سناہو ۔۔۔بابا مجھے اپنے شکار کے قصے سناتا میرے دادا پر داد ا کی زندگی کے بارے میں بتاتا انکی زندگی کے بارے میں کہتا ۔۔۔مجھے انکے باتوں میں انکی سنائی جانی والی تاریخ میں ایک ایسے شخص کا کردار نظر آتا جس کی زندگی فطرت سے جوڑی محبت ،قدرت کے منا ظر سے گہر اتعلق اور ان سے مرتب کی گئی اصولوں پر مبنی زندگی اور اس ضمن میں اپنائی جانیوالی اقدار سے گہرا تعلق اور مہر نظر آتا ۔۔۔۔۔وہ انکا امین اور محافظ نظر آتا ۔۔۔۔جس کا مطمع نظر فطرت اور قدرت کو مٹانا نہیں بلکہ انکے رنگو ں میں رنگ بن کر محو ہوجانا تھا ۔۔۔انکی حفاظت کرنا تھا ۔۔انکو سمجھنا تھا ۔۔۔یہ احساس بابا مجھے جیسے دیمے انداز میں اپنے لفظوں اور احساس و مہر کے ذریعے وراثت میں دے رہا تھا ۔۔۔۔۔میں روز بڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کے عشق میں غرق ہورہا تھا ۔۔۔۔بابا کی فطرت جیسی پاک شخصیت میرا درس گاہ تھی ۔۔۔اسکا غرض اسکی کمٹمنٹ قدرت سے تھا ۔۔۔فطرت سے اسکی یاری تھی ۔۔۔۔سر زمین سے اسکا عشق تھا ۔۔جو اب مجھ میں منتقل ہوئے جارہے تھا ۔۔۔۔اب میں بھی جوان ہورہا تھا ۔۔۔بابا کی نقش قدم پر چلنا میر ا خوب تھا ۔۔۔وہ بابا کا نقش قدم تھا یا فطرت سے یاری اور قدرت سے تعلق کا تقاضہ تھا۔۔۔ با با کے اقدار تھے یا پھر فطرت اور قدرت سے کمٹمنٹ کا بنیادی خاصہ تھا ۔۔۔ بابا مجھے جب لکڑی کاٹنے پہاڑوں میں لے جاتے تو اسے اپنے علاقے کے ہر پتھر سے آشنائی تھا ہر (چکل) پانی کے چھوٹے چشمے سے واقفیت تھی ۔۔۔بابا ہمیشہ ان لکڑیوں کو کاٹتا جو خشک ہوچکے ہوتے وہ (چکل ) سے پانی استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط سے کام لیتا ۔۔ایسے جیسے یہ آب زم زم ہو ۔۔وہ انکو مقد س پانی کہتا ۔۔اور مجھے کہتا انکی ہمیشہ حفاظت کرنا اور انکا احترام کرنا۔۔ ان سے ہماری یہ قدرت اور فطرت کے مناظر زندہ ہیں ۔۔وہ کہتا سارنگ تمہیں پتہ ہے تمار ے خرگوش تمہارے چکور اور دوسرے پرندے اور جانور انہی پانی کی چشموں سے آکر پانی پیتے ہیں ۔۔اگر ہم انکی حفاظت نہیں کرینگے تو یہ ہمارے سب جانور پیاسے مریں گے ۔۔۔بابا کے اس عشق کو دیکھ کر یہ پہاڑ اور سرزمین جیسے میرے لئے مقد س اور میری وجود کا حصہ بنتے جارہے تھے ۔۔۔میں بابا سے پوچھتا کہ جب آپ شکار کے لئے جاتے ہو تو کیوں ایک ساتھ زیادہ خرگوش کیوں نہیں مارتے وہ ہنستا اور کہتا سارنگجس دن تم بندوق لیکر نکلو گے اس زمین پر تو تمارا حساس الگ ہوگا ۔۔۔تماری زمہداری بڑھ جائیگی ۔۔۔۔تم ایک خونخوار کی بجائے محافظ بنو گے ۔۔۔بیٹا بندوق تب طاقت بنتی ہے جب یہ تمارے شعور اور احساس زمہداری کے تابعے ہو ۔۔۔۔۔یہ زمین ہماری ہے ۔۔ یہ ہمارے خرگوش ہیں ہم کھبی کھبار اپنی ضرورت کے تحت شکار کرتے ہیں ہم انکے دشمن نہیں ۔۔۔یہ ہمارے علاقے کی خوبصورتی ہیں ۔۔باباکہتا سارنگ کبھی شکار کیلئے جاہو تو ایک بات یاد رکھنا جب تم اس خشک زمین پر جب کسی خرگوش کو دیکھو یا چکور دیکھو تو تم اس وقت دیکھنا یہ خشک اور بے رنگ زمین اس جانور کے ساتھ کتنی خوبصورت لگے گی ۔۔۔بابا جب یہ کہہ رہا تھا تو ایسے لگ رہا تھا کوئی عاشق اپنی محبوب کی تعریف کر کے نازاں ہو رہا ہو ۔۔۔۔میں اشتیاق میں تھا ۔۔کہ کب وہ وقت آئیگا جب میں شکار کھیلوں گا ۔۔۔
نومبر کا مہینہ تھا آسمان پر بادل تھے ہلکی ہلکی سردی تھی ،میں نے بابا کا بندوق اٹھایا اسکی (امیل )وہ بیگ جس میں بابا کے کارتوس ہوتے تھے ایک عدد چاقو شکار کی ضرورت کی چیزیں تھیں اٹھا کر کمر سے باندھ دیا۔۔۔کلّی جس میں میرے پینے کا پانی تھا کندھے میں ڈالا۔۔۔۔دور بین بھی ساتھ تھا۔ اور شکار کی نیت سے چل نکلا ۔۔میں گدان سے کافی دور نکل آیا تھا ۔۔۔۔آسمان پر چوٹولی کی گاتی ہوئی سریلی آواز سے لطف لے رہا تھا میں ۔۔۔میرے سامنے ایک خشک (خیر) زمین جس پر( بنڈی۔شینلو،شامپستیر،منگلی،کسانکور ) جڑی بوٹیاں تھیں ۔۔اسکے ( جھل اور چھر ) ندی نالوں میں ( کاشم ،گواری درنے ،سمسوق )دوسری بڑی چھوٹی قسم کی جاڑیاں تھیں ۔۔۔ ۔۔۔۔کندھے میں بندوق جیسے احساس زمہ داری جگا رہا تھا مجھ میں ۔۔۔۔میں روز بکریوں کے ساتھ اس خیر میں نکلتا گھومتا رہتا ۔۔۔مگر آ ج کا احساس جیسے بالکل ہی الگ تھا۔۔۔مجھ میں جیسے آنجانا سا احساس تھا ۔۔۔۔ایک ایسا احساس جو مجھے زمہدار بنائے جارہا تھا ۔۔۔جیسے میں شکار کیلے نہیں ان سب کی حفاظت کیلئے نکلا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔بابا کی باتیں بابا کی یادیں میرے ساتھ تھیں ۔۔ایسے جیسے بابا مجھ سے اس زمین کا تعارف کرارہا ہو۔۔۔۔۔ ایسے جیسے مجھ میں احساس زمہ داری جگا رہا ہو۔۔۔ایسی کیفیت تھی جیسے یہ زمین مجھ سے ہنس رہی ہو ۔۔۔سامنے پہاڑ جیسے مجھ سے باتیں کررہے ہوں ۔۔۔
میں بہت خوش تھا۔۔۔اور حد سے زیادہ اس جستجو میں کہ ابھی اس جڑی بوٹی سے ابھی اس ندی سے کوئی خرگوش یا پھر کوئی چکور میرے سامنے آئے گی اور میں اس کا شکار کروں گا ۔۔۔میں اس گومگوکی کیفیت میں تھا ۔۔۔ہلکی ہلکی ہو ا( چرک) چل رہی تھی ۔۔۔سردی کی شرارت بھی ساتھ ساتھ چھیڑ ے جارہا تھا ۔۔۔ایسے میں مجھے دور سے ایک سریلی آواز سنائی دی ۔۔جی یہ چکوروں کی آواز تھی ۔۔۔ایسی آواز کہ جیسے خاموشی میں کوئی دور بیٹھا راگ اور سر بکھیر رہا ہو ۔۔۔اپنے عشق میں جیسے راگ گا رہے ہوں ۔۔۔میں ایک دم رکا اس آواز کی جانب متوجہ ہوا ۔۔آواز ایسے تھا کہ بیٹھ کر سننے کو جی چارہا تھا ۔۔میں اس آواز کی جانب متوجہ ہوئے جارہا تھا۔۔۔میں دیمے دیمے چکوروں کی جانب قدم بڑھائے جارہا تھا۔۔۔۔اور اس کوشش میں تھا کہ چکوروں کے قریب جاسکو ں۔۔۔۔ اسی دوران اچانک ایک ( شیڑی شوپک ) پہاڑی چیڑیا میرے سے کچھ فاصلے پر ایک بڑے سے پتھر پر آکربیٹھ کر زور زور سے سیٹھی بجانے لگا جیسے وہ میرے آنے کی منادی دے رہا ہو ۔۔ مجھے اسکی اس شرارت پر غصہ بھی آرہا تھا مگر اسکی رنگوں بھر ی جسامت کو دیکھ کر اسکی خوبصورتی کو دیکھے جارہا تھا ۔۔۔کیا خوبصورتی تھی اس میں ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے قدرت اور فطرت کے تمام رنگ خود میں سموے پور ے علاقے کی خوبصورتی کا اظہار اپنی نازک اور چھوٹی سے جسم سے کر رہا ہو ۔۔۔ ۔وہ شور مچار ہا تھا ۔۔۔جیسے میر ے سامنے مزاحمت کررہی ہو ۔۔احتجاج کررہی ہو ۔۔۔ یا پھر میرے خطرے سے پورے علاقے کو آگاہ کررہی ہو ۔۔۔مجھے غصہ آرہا تھا ۔۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں قدم بڑھاﺅں گا تو یہ اڑ جائیگی اور اس کے اڑنے سے چکور اور دوسرے پرندے اورجاندار اگر قریب ہوں گے تو وہ بھی اڑ جائینگے بھاگ جائیں گے ۔۔۔میں دیکھے جارہا تھا مگر یہ معصوم مگر شریر چڑیا میرے سامنے جیسے مضبوط پہاڑ بن کر کڑی ہو ۔۔میں غصہ اور حواس باختگی میں اٹھ کھڑ ا ہوا اور قدم بڑھانے لگا ۔۔۔میں بوکھلاہٹ میں شکار کے تمام اصول بھول چکا تھا ۔۔۔میں جیسے چکوروں کے ساتھ دو بدو لڑنے جارہا تھا ۔۔۔مگر میری اس حواس باختگی کا فائدہ وہاں کے کمزور مگر پرتیلے جانداروں اور پرندوں نے اٹھا لیا ۔۔۔وہ مجھ سے زیادہ حکمت والے نکلے ۔۔۔۔ ایک دم میرے سامنے سے ایک بڑے سے پہاڑی پودے (گواری درنے ) سے ایک خرگوش نکلااور دوڑنے لگا ۔۔۔میں ایک دم رکا اور بندوق خرگوش پر تھان لیا۔۔میرے کھڑے ہونے سے چکور بھی مجھے دیکھ کر اڑ گئے ۔۔میں نے بندوق تھان لی اور نشانہ باندھنے لگا ۔۔۔خرگوش جو ان جڑی بوٹیوں میں بھاگے جارہا تھا ۔۔۔اچھل رہا تھا۔۔چلانگیں لگا رہا تھا ۔۔۔تب وہ بے انتہا ءخوبصورت لگا رہا تھا۔۔۔اس کے ساتھ یہ جڑی بوٹیاں بلکہ وہ پورا علاقہ جیسے مکمل ہی تبدیل یا پھر بے جان سی زمین میں جیسے روح آگئی تھی سب علاقہ جیسے زندہ اور جاندار بن کر اپنی خوبصورتی اور زندہ ہونے کا احساس دلارہے ہاتھا۔۔۔
۔۔یہ خشک جڑی بوٹیاں جیسے رنگین ہوگئیں تھیں ۔۔۔جیسے وہ زمین قدرت کی تمام شاہکاروں کے ساتھ اپنی خوبصورتی کا اظہار کررہا تھا ۔۔۔۔مجھے بابا کی وہ بات یاد آئی کہ جب میں اس خشک جڑی بوٹیوں میں کسی خرگوش کوبھاگتا دیکھوں کسی چکور کو اڑتا دیکھو تو اسکی خوبصورتی کا نظارہ تب مجھے ہوگا۔۔اور آج میں وہی نظارہ دیکھ رہا تھا ۔۔میر ے سامنے جیسے قدرت کے تمام رنگ اور خوبصورتی یکجا ہو گئے تھے ۔۔۔میں دیکھے جارہا تھا ۔۔۔اور اپنی زمین کی اس خوبصورتی میں گم ہوکر ساقت تھا ۔۔توڑی ہی دیر میں خرگوش میرے نظروں سے اجھل ہوا اور میں بندوق تھانے کھڑا تھا ۔۔اور فطرت کا ایک حصہ بنے قدرت کے مناظر میں گم تھا ۔۔۔
۔۔۔۔ توڑی دیر بعدگدان کی جانب جاتے ہوئے بابا کے الفاظ بابا کی اپنے وطن اور علاقے سے مہر بابا کی اس دھرتی سے متعلق احساس زمہداری میرے دماغ میں جیسے ایک ایک کر کے گھوم رہے تھے ۔۔بابا کی زمہداری جیسے مجھے منتقل ہوچکی تھی ۔۔۔سرزمین سے عشق اسکی حفاظت کا جذبہ اور اس خمیر سے تعلق جیسے میرے سامنے کھل گئے تھے اور میں قدرت کی ان رنگینیوں کا حصہ بن چکا تھا جیسا کہ وہاں کی جڑی بوٹیاں تھیں۔۔وہاں کے پہاڑ جو ایک دوسرے کی حفاظت کئے قدرت اور فطرت کو زندگی بخشے ہوئے ہیں ۔۔حفاظت کا جذبہ تو مجھے وہ چھوٹی سے چڑیا (شڑی شوپک) دے گئی جو بظاہرتو معصوم سی ایک انتہائی نازک سی تھی مگر وہ قدرت کے ان رنگو ں کا کس قدر مضبوط محافظ نکلا مجھے اسکا اندازہ تب ہوا جب میرے سامنے اسکی آواز اور للکارنے سے میں جو انتہائی محتاط انداز میں شکار کی نیت سے جھکے جارہاتھا اس قدر حوا س باختہ ہوا کہ اٹھ کھڑا ہوا جس سے خرگوش بھاک نکلااور مجھے دیکھ کر چکور بھی اڑ گئے وہ معصوم سی چڑیا کتنا بڑا محافظ تھااس پوری فطر ت کا۔۔۔ قدرت کا ۔۔۔ اس کی اس ادا نے مجھ میں قدرت فطرت اور سرزمین کی حفاظت کا جذبہ بیدار کیا۔۔ میں شڑی شوپک کو یاد کئے مسکرا رہا تھا اور گدان کی جانب قدم بڑھائے جارہاتھا ۔۔۔۔سوچ رہا تھا کہ بابا کی پرورش اورشڑی شوپک کی معصوم ادا اورعشق مجھے سارنگ سے بالاچ تک سفر کروایا ۔۔۔۔۔