سیندک پروجیکٹ کے حوالے سے چائینز کمپنی کے ساتھ معاہدہ قابل قبول نہیں : مجید اچکزئی

200

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ محکمہ صنعت وحرفت اور تعلیم سمیت تمام محکموں میں کرپشن عروج پر ہے صوبے کے صنعتی زون کی ریونیو سندھ میں جمع ہونا اٹھارویں ترمیم کی سراسر خلاف ورزی ہے وہ جی ڈی سی ایل سوئی سدرن ، ماری گیس اور زرغون گیس کے خلاف سپریم کورٹ جاؤنگا صوبے کے مفادات پر کوئی سودا بازی قابل قبول نہیں ہے وفاقی حکومت نے سیندک پروجیکٹ کا معاہدہ چائینز کمپنی کے ساتھ کر کے اٹھارویں ترمیم کی آئینی خلاف ورزی کی گئی اور اس پر خاموش نہیں رہیں گے محکمہ تعلیم میں ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجو دساڑھے چارسال کے دوران25 ہزار گھوسٹ ملازمین کا پتہ نہ چلانا محکمہ تعلیم کی نا اہلی ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تمام محکموں کا آڈٹ کر رہی ہے آڈٹ رپورٹ شائع ہونے کے بعد اب کسی کا بچنا مشکل ہے چا ہئے جو بھی کوئی ملوث پایا گیا ان کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے محکمہ صحت وحرفت ومحکمہ تعلیم کے متعلق اجلاسوں کے بعد ’’ آن لائن‘‘ سے بات چیت کر تے ہوئے کیا اس سے قبل محکمہ صنعت وحرفت ومحکمہ تعلیم کے سیکرٹریز ، ڈی جی آڈٹ اور ڈی جی ای جی آفس بھی موجود تھے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ سیکرٹری صنعت وحرفت نے جو انکشافات کئے ہیں ان میں حقیقت ہے اور اس حقیقت کو اب منظر عام پر لائیں گے اور اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی میں بھی بات کی جائے گی سندھ حکومت ہر سال جو 65 فیصد ریونیو جمع کر تا ہے اس میں زیادہ تر بلوچستان کا حصہ جا تا ہے سیندک پروجیکٹ کی سراسر خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہ معاہدہ قابل قبول نہیں جس دن چائینز کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا اس وقت ہمارے صوبے کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا اٹھارویں ترمیم کے بعد نیا معاہدہ کر نا ہمیں کر نا چا ہئے تھا مگر بد قسمتی سے وفاق نے ہمارے ساتھ اچھائی نہیں کی اور جان بوجھ کر بلوچستان کو پسماندہ رکھنے کے لئے چائینز کمپنی کیساتھ معائدہ کیا اور جو شیئر متعین کئے گئے ہیں اس حوالے سے بھی صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اٹھارویں ترمیم کے بعد ایم پی ڈی سی آج بھی وفاقی حکومت چلا رہی ہے سوئی سدرن ، ماروی ، زرغون اور اوجی ڈی سی ایل کے خلاف بھی سپریم کورٹ جائیں گے انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے صنعتی زونز کے جو منافع اور ریونیو بنتا ہے ان کے دفاتر سندھ میں ہونے کے باعث ریونیو سندھ میں شمار کی جاتی ہے اور باہر سے جو بھی مشینری اور میٹریل آتی ہے ان کی ٹیکسز بھی سندھ حکومت کے حصے میں چلی جاتی ہے سیکرٹری صنعت وحرفت نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران انکشاف کیا کہ ہر سال 70 سے80 ارب روپے ریونیو کی مد میں سندھ کی حصے میں جاتی ہے اور بلوچستان کے کھاتے میں شمار نہیں کئے جا تے اور تمام تر ریونیو سندھ میں شمار کی جاتی ہے پروڈکشن اور زمین ہم دے رہے ہیں لیکن منافع سندھ حکومت لیتا ہے 1982 سے لیڈ ا وجود میں آئی اور منافع کوئی اور لیتا ہے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو زیادہ نقصان ہو گا اور اس کا فائدہ سب سے زیادہ سندھ کو ملے گا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اس وقت بھی محکمہ تعلیم میں25 ہزار گھوسٹ ملازمین ہے جو ریکارڈ نہیں ملا یہ ہمارے درد سر نہیں بلکہ ہر حال میں ہمیں ریکارڈ دیا جائے اگر بجٹ مل رہا ہے تو بجٹ کا حصہ بھی دینا ہو گا یہ اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے محکمہ تعلیم میں کرپشن کی وجہ سے کوئی آڈٹ کا ریکارڈ نہیں دے رہا تو ہمیں شعبہ ہے کہ بڑے پیمانے پر کرپشن ہو رہی ہے تعلیم کے ساتھ اب مزاق بند ہو نا چا ہئے 25 کروڑ روپے اساتذہ کی ٹریننگ پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن پھر بھی اساتذہ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں محکمہ تعلیم کا بجٹ40 ارب روپے کر دیامگر کوئی آڈٹ نہیں ہو رہا اور آڈٹ کی بک چھپ گئے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا انہوں نے کہا ہے کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 10 سال میں دو حلقوں میں35 ارب روپے سڑک بننے پر خرچ ہوئے لیکن آج تک وہ سڑک مکمل نہیں ہے اور اسی طرح ایک حلقے میں300 ٹیوب ویل لگائے گئے مگر آج بھی لوگ پینے کے پانی کے لئے ترس رہے ہیں ۔