کوئٹہ: پرائیویٹ ہسپتالوں میں موت مہنگے داموں فروخت ہورہا ہے

485

کوئٹہ سے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سکندر خان کی رپورٹ

کوئٹہ شہر میں سرکاری اسپتالوں کی روز بروز ناگفتہ بہ حالت سے مجبور ہوکر اب بہت سارے مریض پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں ، اور اس امید کے ساتھ کہ و ہاں معیاری علاج ممکن ہو گا ، لیکن حالیہ کچھ عرصے سے کوئٹہ کے پرائیویٹ ہسپتالوں نے مافیا کی شکل اختیار کررکھا ہے ، جہاں پہ موت انتہائی مہنگے داموں اور بہت ہی بے عزتی کے ساتھ فروخت ہورہا ہے۔

پرائیویٹ ہسپتالوں کی بابت سرکاری ادارے بھی کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر اس لئے نظر آرہے کہ سرکاری ڈاکٹر صاحبان کو اگر ان کی پرائیویٹ کلینک میں علاج کرنے سے منع کیا گیا یا ان پہ پابندی لگائی جائے تو احتجاج کے طورپر وہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے سے بھی انکار کرتے ہیں جس کی وجہ کوئٹہ شہر اور دوردراز کے علاقوں سے آنے والے مریضوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

گذشتہ روز دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے نے کوئٹہ شہر کے چند چنیدہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا دورہ کرکے وہاں علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں سے بات چیت کی تو ہر مریض اور اس ساتھ آنے والوں کے ایک درد بھری داستان تھی ۔

گیلانی ہسپتال میں ایک مریض عبدالقدیر جس کا تعلق کچلاک سے تھا، کا کہنا تھا کہ میرے معدے میں معمولی سا تکلیف تھا ، دوا لینے کے بعد درد میں کمی آنے کے بجائے اس میں مزید شدت آئی اور اب تک میں نے گیارہ بار اس ہسپتال کا چکر لگایا ہے اور ہر دفعہ مجھے نو ہزار سے لیکر تیرہ ہزار تک کی دوائیاں دی جاتی ہے ۔

اکرم ہسپتال میں ایک مریض کے ساتھ آنے والے حاجی عبدالولی شاہوانی نے کہا کہ میرا بیٹا موٹر سائیکل سے گرنے کی وجہ سے سر میں چھوٹ آیا جس کے بعد اس کی دماغی حالت بھی اب برابر نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس کا علاج ڈاکٹر سلیم بڑیچ سے وہ کروا رہا ہے ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کبھی توجہ سے علاج ہی نہیں کرتے ہے ، بس پیسہ کمانے میں لگا ہوا ہے اور بیک وقت چار مریضوں کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں ۔ نہ مریض سے اس کی بیماری کا پوچھتا ہے اور نہ خود ہی بیماری کے بارے مریض کا کچھ بتاتا ہے بس پھر ہزاروں کی دوائی لکھ کر اگلے ماہ پھر آنے کو کہتا ہے ۔

اس تمام صورتحال کے بعد ہمارے نمائندے نے ایک معروف ڈاکٹر سے بات چیت کی تو اس کا کہنا تھا کہ دوا ساز کمپنیوں نے ڈاکٹروں کو خرید رکھا جس کی وجہ وہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں موت ہی تو فروخت کررہے ہیں ۔ اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ دوا ساز کمپنیوں کی بھرمار اور دوائیوں کی ناقص معیار کے سبب مریض اس وقت تک صحیح ہے جب تک وہ دوائی لیتا ہے جیسے ہی دوائی ختم ہوئے، مریض کی حالت پھر پرانے پوزیشن پہ آجاتا ہے ۔

اسی بابت ڈاکٹر سے جب پوچھا گیا کہ اس کا حل کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات پیسے کی خاطر نہ بلکہ خدمت انسانیت کے جذبے کے تحت اپنے فرض کو نبھائیں ۔