قربانی کے فلسفے میں نجات ہے – ہونک بلوچ

181

قربانی کے فلسفے میں نجات ہے

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ میں ایک بات کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، وہ جو جان سے گذر جاتے ہیں، وہ عظیم ہوتے ہیں، جب انسان راہ نجات کےلیئے تاریخی فیصلہ لیتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ ایک فرد کیا کچھ کرسکتا ہے بلکہ یہ سوچتاہے اپنا قرض اور فرض نبھانا عقیدہ ہے، عقیدہ سمجھ کر وہ اپنی نجات راہ کا انتخاب کرتا یا کرتی ہے، وہ تاریخ میں فخر کے علامت بنتے ہیں۔

جب کوئی فرد انفرادی سے نکل کر اجتماع کے بارے میں سوچتا ہے، اُس راہ کا انتخاب کرتا ہے تو اُس کی سوچ بہت بڑی ہوتی ہے، شاید اس بات کو کچھ لوگ آسانی سےسمجھ نہیں سکیں، اس کی بہت سے وجوہا ت ہیں، جو میں بیاں کرنے کی کوشش کرتا ہوں، شاید کچھ لوگ اتفاق کریں یا نا کریں، حقیقی بنیاد پر غور کر نے کی کوشش کریں، سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا ہم حقیقی بنیاد پر تاریخ کی طالب علم ہیں؟ اس بات کو کتنے باشعور انسان تسلیم کرتے ہیں، اگر تسلیم کیا جاتا ہے تو انسانی احترام اور قومی بقا کے متعلق حقیقی بنیاد پر جانکاری رکھتے ہیں یا نہیں، یہ سوال کافی اہم ہوتا ہے، صرف محکوم قوم کےلیئے نہیں بلکہ عام انسان کےلیئے، تہذیب کو سمجھنا بہت لازمی ہے، اس جد ید دور میں اگر جدیدیت کو حقیقی بنیاد پر سمجھنا چاہتے ہیں تو اپنے اپنے تہذیب کو پڑھیں، وہاں ہونے والے غلطیوں اور کامیابیوں کو دیکھیں تو آگے کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔

محکوم قوم کے ذہن میں بے بنیاد سوال پیدا کیا جاتا ہے، اُسے بنیادی سوال سے زیادہ ایسے چیزوں میں مصروف کرتے ہیں تاکہ وہ بنیاد ی سو ال کی طرٖف نہیں جائیں ، وہ حقائق ان سے پوشدہ ہیں جسے قومی سوال کہا جاتا ہے، تر قی کے پہلے قدم کےلئے لازمی ہے قومی سوال کو بہتر طریقے سے سمجھنا ہو گا۔

اکثر قابض حکمروں کی کوشش ہو تی ہے کہ وہ محکوم کے فرزندوں کی تو جہ ہٹانے کےلئے ان کو سطحی بنیاد پرمصروف کریں ، انکو وہ عینک پہنا دیتے ہیں جوصرف سطحی چیزیں کو دیکھ سکیں ، دراصل یہ عینک دور تک نہیں دیکھ سکتا اور پھر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے، اُس کا قصور نہیں کیونکہ اُسے تاریخ سے بے خبر رکھا جاتا ہے ایسے لوگ جو تاریخ سے بے خبر ہیں وہ روبوٹ کی طرح ہو تے ہیں، جو خود سوچ نہیں سکتے لیکن خطا اُسکی نہیں بلکہ و ہ نظام کا جہاں سے تربیت حاصل کررہا ہے، اُسے اپنے تاریخ سے بیگانہ کردیتا ہے، ایسے لوگ سطحی بنیادوں پرسوچنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے اوپر کچھ نہیں کرسکتا، دراصل انکو حقیقی تاریخ سے دور رکھا جاتا ہے، وہ جو بیماری کی اصل علاج تک پہنچ نہیں سکتے ہیں۔

اکثر انسان سوچتاہے کہ میں فتح حاصل کیسے کر سکتا ہوں، وہ صر ف اپنی ذات تک محدود ہو جاتا ہے کیونکہ انفرادیت سے کو ئی انکار نہیں کرسکتاہے، اس فلسفے کو ماننے والے بھی ہیں، انفرادی عمل اجتماعی عمل کا روح ہو تا ہے، اب یہاں سوال پیدا ہو جاتا ہے وہ کیسے؟ آئیں اس متعلق کچھ بحث کر تے ہیں جو عمل انسان اپنی ذات کےلئے کر تا ہے، اُس کی وجہ یہ ہوتا ہے وہ اپنے اور اپنے خاندان کی بالا کر سکے، دراصل اُس کا خاندان بھی اجتماع کا حصہ ہے، خاندان پر گاو ں آہستہ آہستہ پوری ملک تک جاتی ہے تو یہاں اس بات کے حقیقی فلسفے کو سمجھنے کی کو شش کریں، وہ بھی انسان کچھ بھی کریں اُس کی اثرات کم یا زیادہ انسانی زندگی کو نقصان اور فائدہ دیتی ہے، کیا ہم یہاں اتفاق کر تے ہیں یا نہیں، میرے خیال میں ہر ذی شعور کو اتفا ق کر نا ہو تا ہے۔

انسانی زندگی کا اصوال یہی درس دیتی ہے، فلسفہ زندگی انسانی تحقیق کو تسلیم کر تا ہے ، مگر ایسے راہ کا انتخاب کرنا جو قسمت کی نہیں بلکہ فلسفہ زندگی کا بڑا حصہ ہو تا ہے اور عظیم تاریخ کا حصہ ہے جر منی کی تا ریخ جہاں انسانی قتل عام کا قصہ مشہو ر ہے یہ بھی بات مانی جاتی ہے جنہوں نے اس قتل عام کا سامنا کیا تھا انکی تاریخ بھی انسان کےلئے سبق آموز ہے اس لئے کہ ان کے قتل عا م سے کچھ لوگ نئی راہ اپنانے کی کو شش کرتے ہیں تا کہ انسان کشی کے خلاف دیوار کھڑی کرنی چاہئے اور اقوام متحد ہ جیسے اداراے تشکیل دیتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں اقوام متحدہ تشکیل کے بعد انسان کشی بند ہوئی ہے لیکن کہیں نا کہیں لوگ اپنے مفادات کےلئے یہاں کچھ بولتے اور رائے بناتے ہیں، ایسے کا م ہی تاریخ کے حصے ہیں، عظیم لوگ وہ مانے جاتے ہیں، جو اپنے تحفظ کےلئے کچھ کرتے ہیں، تاریخ میں ان لوگوں کے نام اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا ہے، جو ظالم تھے اب ایسے ہی کچھ لو گوں کے متعلق بحث کی کو شش کرتے ہیں، انسانی تاریخ میں عظیم اور فخر کے باعث ہیں، یہ سب کچھ بحث کرنےکا مقصد یہی ہے کہ انسان فتح اور شکست کو مدنظر رکھ کر انسانی اور قومی سر بلندی کےلئے امر ہو جاتے ہیں۔ انکی تاریخ کو پڑھنے سے انسان کو فخر محسوس ہو جاتاہے ، خود کو سمجھنے میں آسانی ہو گی جب کو ئی خو د کو سمجھ سکے تو کچھ بھی کر سکتاہے، اپنی تاریخ کا مطالعہ بہت لازمی ہے، خود کو سمجھنے کےلئے جہاں ایک تاریخ ملتی ہے قومی وقار کی سربلندی کا جذبہ قربانی کا وغیر ہ وغیرہ۔

آئیں سب پہلے بلوچ قومی ہیرو حمل و جیئند کو جاننے کی کو شش کر تے ہیں، جو دشمن کو دیکھ کر محسوس نہیں بلکہ جانتا تھا اس کی رزلٹ کیا ہے؟ وہ سب کچھ جانتے تھے لیکن پھربھی دشمن کو تسلیم کر نے بجائے انہوں نے انکے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، جس کی بہادروی پر بلو چ فخر کرتا ہے، یہ بات زہن میں رکھیں تاریخ سے روشناس ہونے والے انسان زیادہ تر یہ کوشش کر تے ہیں اور اپنی انفرادی سے زیادہ اجتماعی مفادات کو عزیز رکھتے ہیں اورتاریخ کو زندہ کر نے کی کو شش کرتےہیں، جو ذاتی مفادات کو ٹھکرا کر اُس راہ کا انتخاب کرتے ہیں جس میں صر ف زندگی چند منٹ اور چند دن کا مہما ن ہو جا تا ہے لیکن باوجود اس کے مزاحمت کا راہ چن لیتے ہیں ایسے عظیم لوگ تاریخ کے فرزند ہو تے ہیں، اس لئے حمل جیند پرفخر کرتے ہیں ، اُسکی بہادری کا قصہ دشمن نے اپنے قلم سے لکھا ہے، کہنے کا مقصد اس دنیا میں عظیم انسان وہی ہے جو کچھ ایسا کر تے ہیں جو خود ایک تاریخ بن جاتاہے۔ کمزور اور زور آور کے درمیان یہی فرق ہے زور آور کو تاریخ ایسے الفاظ میں یاد کر تی ہے جس سے انسان کو شرمندگی محسوس ہو تی ہے اور کمزور جب راہ نجات کے لئے راہ کاا نتخاب کر تا ہے تو وہ نجات دہندہ مانا جاتا ہے جب بھی تاریخ اٹھا کر پڑھیں تو جب کو ئی زورآور کے خلا ف مز احمت کا راہ انتخاب کیا تو ایسے لوگوں کو محکو م سمیت دنیا کے باشعور انسانوں نے اپنا ہیر و تسلیم کیا، جو تاریخ میں نجات دہندہ رہے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے قر بانی دی ہے لیکن دشمن کے مقابلے کمزور رہے لیکن انکی عزم بہت مضبو ط رہی ہے ، خود کو قربان کرنے اور تاریخ کو سنہر ی کر نے میں انکا کردار بہت بڑا مقام ہے۔

اب ہم بلوچ خان نوشیروانی کو دیکھیں ایک عظیم ہیروہیں، بلوچ تاریخ میں انکا کردار باعث فخر ہے، جب کوہ پروش کی لڑائی کا ذکر ہو تاہے تو بلوچ خان نو شیروانی کا نام انکے بہادری کے قصے ذہن میں آجاتے ہیں اور یہ تاریخ میں ملتا ہے انکے چند ساتھی جو بھاگ جاتے ہیں بھاگنے والے تاریخ بھی باعث شرمنددگی ہو تے ہیں ، جب بلو چ خان کو یہ کہا جاتاہے دشمن فو ج کی تعداد بہت بڑی ہے ہمیں شکست دیں گے اور ہما رے اپنی طاقت نہیں ہو تی ہے لیکن انہوں نے ایک بات اپنی زہن میں رکھ کر آگے کی جانب گامزن ہو ئے کہ میں اپنے جان کی قربانی دے سکتا ہوں اور دشمن کے خلاف کچھ وقت تو مزاحمت کرسکتے ہیں تاریخ میں خود کو امر کرسکتے ہیں امر ہوکر تاریخ میں فخر کا باعث بنے ہیں، ایسے انسان انمول ہوتے ہیں۔

آئیں ایک اور تاریخ کا ذکر کرنے کو شش کر تے ہیں، تاریخ کہتا ہے جب انگر یز ۱۸۳۹کو بلوچستان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو شہید خان مہر اب خان کو اطلا ع دی جاتی ہے کہ آ پ پر انگر یز فوج حملہ کرنے والی ہے آپ کے ریاست پر قبضے کے لیئے آرہے ہیں تا ریخ میں یہ لکھا ہے جب دشمن بہت نزدیک آجاتے ہیں یہ پیغام ہے وہ انگر یز فوج کے سامنے ہتھیار پھنیک دیں کمزور ہو نے کے باجود کہتا ہے میں ہتھیار پھینک نہیں سکتا ہوں حتیٰ کہ پو ری بلوچستان سے انگر یز کے خلاف بلوچ لشکر کو یکجا کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ بلوچستان بہت طویل جغرافیا رکھتی تھی، اتنی جلدی پو ری قوم کو یکجا کرنے میں بہت مشکل تھا خان شہید مہر اب خان کے دربار میں خان سے کہتے ہیں کہ آپ انگر یز فوج کے سامنے سلامی پیش کر یں وہ ہم پر حملے آوار ہو کر ہمیں جانی اور مالی نقصان دیں گے انکے ساتھ جدید ہتھیار بھی مو جود ہیں، انکی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، آپ کو مار دیں گے ، بہت ہی خوبصور ت بات مہرا ب خان نے ادا کی کیا میں اپنے آنے والے نسل کو یہ پیغام دوں کہ آپ غلامی تسلیم کریں ،مزاحمت نہیں کر یں جب بھی زور آور حملہ آور ہو جائے تو آپ انکو تسلیم کریں یہ بات خان کو اچھی نہیں گزری تو انہوں یہ کیا کہ اگر ہم انکو شکست نہیں دے سکتے ہیں تو کیا ہو گا یہ ہم بھی جانتے ہیں لیکن انکو تسلیم نہیں کرتے ہیں ،جب بھی بلوچستان کی طرف آنے والے قبضہ گیر سوچتے ہیں تو یہ ضرور سوچ لیں یہاں مزاحمت کرنے والے لوگ ہمیں ملیں گے، مہر اب خان نے بہت ہی جرات مندی اور جوان مردی کے ساتھ مزاحمت کی۔ انگر یز کو تسلیم کرنے بجائے سرخ رو ہو کر اپنے قوم کو یہ پیغام دیا کہ جب آپ مزاحمت نہیں کر تے ہیں تو آپ کا وجود ختم ہو جاتاہے، جب آپ زور آور کے خلاف سینا تان کر جنگ لڑتے رہیں گے تو وہاں ایک بات زہن میں رکھیں آپ کے آنے والے نسل بہادر پیدا ہو نگے اور راہ نجات کو سمجھیں، جبر کو تسلیم نہیں کر نا چاہئے بلکہ جبرکے خلاف بغاوت صدا بلند کرنا چاہئے، تاریخ گواہ ہے اس مزاحمت نے نئی تاریخ رقم کردی جب ہمیں ناکامی اور کامیابی کا زیادہ سوچ لیتے، نقصان اور فائدہ کےلئے سوچ لیتے ہیں تو انکے درمیان ہمیں وہ نام یا د رہے گا جو اس لئے اس راہ کا انتخاب کر تے ہیں اس میں موت ہے لیکن وہ قوم کی نجات ہو گا۔

اب اس جد ید دور میں ہم دیکھ رہے ہیں، بلوچ جد وجہد ایک ایسے مقام پر ہے جہاں صرف قربانی کا تقاضہ ہو رہاہے، یہ نہیں کہا جاتاہے دشمن بہت بڑا ہے، انکے ساتھ بڑے ہتھیار موجود ہیں لیکن ہمارے پاس ایک چیز ہے وہ ہے قربانی مہر اب خان کا فلسفہ، شہید مہراب خان کا یہ فلسفے ہر بلوچ کے لئے فرض ہے اس متعلق جانکاری رکھیں، اس نئی دنیا میں ایک فلسفہ ہے اگر زورآور کو شکست دینی ہے تو راہ نجات حاصل کر نا چاہتا ہیں، مزاحمت کی راہ کا انتخاب کر نا ہو گا، یہ نہیں دیکھنا چاہئے کیا کچھ ہو رہا ہے بلکہ میں کیا کچھ کر سکتاہوں۔ اس وقت یہی بہت بڑا سوال ہے ،بلکہ تما م زہنی بیماری کا ایک علاج ہے راہ نجات پر اپنے اپنے قربانی کے حق کو ادا کر نا ہو گا ، شاہ ہو ں یا گدا تما م کے تمام کے تما م ایک بات ضرور زہن میں رکھیں اس زور آور کو اپنے سرزمین سے نکال باہر کریں۔

یہ تمام باتیں تفصیل کے ساتھ بحث کرنے کا مقصد یہی ہے بلوچوں کا اعلان کر دہ وہ دن ہے جس دن میں نجات دہندگاں کو یاد کریں، انکے دیے ہو ئے فلسفے کو جانیں اور اپنے راہ کا انتخاب کریں، جو ہمارے خو شحالی کے لئے امر ہو ئے، ہمیں اپنے شہیدوں کو یاد کر نا چاہئے اور انکے دیے ہو ئے فلسفے کو زندہ رکھیں، اُس وقت تک کہ اپنے آنے والی نسل تک یہ جد وجہد کامیابی کی شکل میں نہیں دیتے ہیں، ہربلوچ پر فرض بنتاہے وہ ۱۳نومبر اپنے اپنے گھر وں میں شہید وں کے لئےشمع روش کر یں اور اپنے آنے والے نسل کو ان شہیدووں کے بارے میں آگاہی دیں کیونکہ بی ایس او آزاد کا دیا ہوا یہ پیغام کہ آپ لوگوں کو نجات دہندگان کو یاد کر نا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔