بلوچستان سے خواتین و بچوں کی گمشدگی تشویشناک ہے – ایچ آر سی پی

153

جنیوا کنونشن کے خلاف ورزی پر اقوام عالم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان سے جواب طلبی کرے – ماما قدیر

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3605 دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے دیدگ بلوچ، نور بخش بلوچ، نذیر بلوچ اور کوئٹہ سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رہنما شمن الملک، حبیب طاہر، فرید احمد اور قمرالنسا نے احتجاجی کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے رہنماوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے نیا سلسلہ شروع ہونے کا سننے میں آیا جس کی تصدیق کے لیے ہم ماما قدیر بلوچ کے پاس آئے ہیں۔ انہوں نے کہا جب نئی حکومت آئی تو کچھ لوگ رہا ہوئے جس کے باعث ہمیں خوشی ہوئی کہ لوگ واپس اپنے گھروں کو پہنچنا شروع ہوئے ہیں اس دورانئے میں دس سالوں سے لاپتہ لوگ بھی بازیاب ہوئیں جو ایک خوش آئند بات تھی اور ہم نے اس عمل کو سراہا تھا لیکن اب ایک گمشدگیوں کا نیا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب خواتین اور بچے بھی لاپتہ کیئے جارہے ہیں جوکہ انتہائی تشویشناک بات ہے اور ہمارے لیے انتہائی پریشانی کی بات ہے کہ اگر اس طرح کا سلسلہ یہاں شروع ہوتا ہے یا ہوا ہے یا ہوچکا ہے تو ہم انتہائی خطرناک سمت میں جارہے ہیں چونکہ ہم ایک قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں شاید ہم اس مسئلے کو برداشت کرنے کے قابل نہ ہو۔

وی بی ایم پی کے ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ جنیوا کنونشن کے خلاف ورزی پر اقوام عالم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان سے جواب طلبی کرے اور بلوچوں پر ظلم اور جبر کو روکھنے میں کردار ادا کریں۔ جنیوا کنونشن کی دفعہ 36 طبعی امداد کی گاڑیوں اور ہوائی جہازوں پر زخمیوں اور بیماروں کی نقل عمل کی حفاظت اور ضمانت فراہم کرتی ہے لیکن پاکستانی خفیہ ادارے گاڑیوں میں سوار اور ہسپتالوں میں زیر علاج بلوچ زخمی یا بیمار افراد کو اٹھاکر اپنے ٹارچر سیلوں میں منتقل کرتے ہیں جہاں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا پاکستان کی یہ غیر انسانی عمل عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس کے باعث پاکستان کو براہ راست جنگی جرائم میں ملوث قرار دیا جاسکتا ہے۔