سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کے ایجوکیشن سیکریٹری سلیم بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کسی بھی سماج میں سماجی برائیوں، غیر پیداواری نظام تعلیم، افسر شاہی نظام سمیت بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی، پسماندگی اور سماجی و سیاسی جمود کے محرکات کو سمجھنے میں مطالعہ کتب کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
“ورلڈ بک و کاپی رائٹ ڈے یونیسکو کی جانب سے ہر سال 23 اپریل کو ولیم شیکسپیئر کی برسی پر منانے کا مقصد دنیا کو لکھنے، مطالعہ کرنے و تحقیق اور جستجو کی اہمیت و افادیت بارے آگاہی دینا ہے، کتاب کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خود خدا نے انسانیت کو راہ حق و ہدایت پر لانے اور تحقیق و جستجو کے لئے کتابیں نازل کی۔”
انہوں نے کہا کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا آج وہ ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں، ہر بات پر یورپ کی مثالیں لوگ اس لئے دیتے ہیں کہ ان قوموں نے کتابوں کو حقیقی معنوں میں مطالعہ کرکے اپنے طرز زندگی کا حصہ بنایا یہ مطالعہ ہی ہے جس کی بدولت انکا نظام تعلیم ،نظام انصاف، معاشرتی نظام سمیت زندگی کا ہر شعبہ اپنی مثال آپ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سیو اسٹوڈنٹس فیوچر روز اول سے دیگر تعلیمی سرگرمیوں سمیت مطالعہ کی اہمیت و کتاب دوستی کے سلسلے میں جدوجہد کرتی آرہی ہے جس میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، مطالعہ اور شعوری بیداری سے اٹھنے والے سوالات سے خوفزدہ عناصر نے بارہا تنظیم کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں، کتب میلوں، مطالعاتی سرکلز اور ہمہ قسم کی شعوری مجالس کو سبوتاژ کرتے رہے لیکن علمی کاروان میں شامل ساتھیوں کی مستقل مزاجی میں کوئی فرق نہیں آیا تنظیمی دوست ثابت قدمی سے جدوجہد کتاب و قلم جاری رکھے ہوئے ہیں اور آخری دم تک یہ شعوری جہد جاری و ساری رہے گی۔
ایجوکیشن سیکریٹری نے مزید کہا کہ آج اگر لوگ بلوچ اور کتاب دوستی کی مثالیں دے رہے ہیں، کتب میلوں اور فیسٹیولز میں لاکھوں کی کتابیں فروخت ہورہیں ہیں تو اسکا سہرا انہی علم دوست شخصیات کو ہی جاتا ہے، جنہوں نے دن رات ایک کرکے جدوجہد کی حتیٰ کہ شہید پروفیسر عبد الرزاق اور دیگر شہداء کی صورت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور بلوچ سماج کو کتاب و مطالعہ کی اہمیت سے روشناس کرایا۔
مزید انکا کہنا تھا کہ تنظیم تمام نوجوانوں اور طلباء و طالبات کو یہی پیغام دیتی ہے کہ وہ کتاب سے دوستی کریں، شعوری و تنقیدی مباحثوں میں حصہ لیں، پیداواری سرگرمیوں کا حصہ بنیں ایس ایس ایف جیسے علمی و شعوری کاروان کا حصہ بن کر اپنی توانائیاں مثبت راہ میں بروئے کار لائیں، نوجوان طبقہ ہی بلوچ کلچر، تاریخ، تہزیب سمیت خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کو بہتر انداز میں سمجھ کر دنیا کے سامنے لا سکتا ہے، نوجوان ہی سماجی ڈھانچے، بینکاری نظام تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پسماندگی کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر شعوری جدوجہد کرکے اپنی توانائیاں بہتر طریقے سے بروئے کار لا سکتے ہیں اور اس راہ میں کتاب دوستی مطالعہ اور مثبت تنقیدی سرگرمیاں ناگزیر عمل ہیں۔