کریمہ بلوچ اور بیرون ملک سیاسی رہنماؤں کا قتل ۔ کمبر بلوچ

860

کریمہ بلوچ اور بیرون ملک سیاسی رہنماؤں کا قتل 

تحریر: کمبر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

دو ہزار کی دہائی میں شروع ہونی والی انسر جنسی کا تسلسل آج بھی جاری ہے اور جنگی ماہرین کے مطابق جنگوں کے طوالت سے جنگ میں شامل لوگوں پر منفی نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ( جنگ سے دستبرداری اور دیگر نفسیاتی مسائل کے شکار ہونے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے )۔ دشمن کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے اجتماعی شعور اور اعصاب پر حملہ کرے، اسی لئے دشمن تحریک کی قیادت یعنی اس کے دماغ کو نشانا بناتا ہے ۔ بانک کریمہ بلوچ کو شہید کر کے دشمن نے نہ صرف ہمیں ایک قومی رہنما سے محروم کیا ہے بلکہ ہماری قومی اعصاب پر بھی حملہ کیا ہے۔

‏‎ دنیا میں سیاسی تنازعات کا زکر کریں تو اسرائیل کا تنازع حزب اللہ کے ساتھ ہے لیکن اس کا سب سے بڑا ہدف حسن نصراللہ ہے کیونکہ وہ تحریک کا روح رواں ہے ۔ اسی طرح امریکہ کے ہاتھوں عراق میں قاسم سلیمانی کے قتل کے پیچھے محرکات یہ تھے کہ قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں ایران کے لیے ایک رہنما کا کردار ادا کر رہے تھے جس کا عالمی قوتوں کو مکمل ادراک تھا۔المختصر یہ کہ دشمن کیلئے تحریکی قیادت یا لیڈر اہم اہداف ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں‎ قبضے کے خلاف 1948 سے شروع ہونے والی آغا عبد کریم کی تحریک آزادی 1962 میں بابو شیرو مری کے ہاتھوں ایک منظم شکل اختیار کرتے ہوئے 1973 میں باقاعدہ تنظیمی ڈھانچے کی شکل میں پروان چڑھی ہے جو سنہ دو ہزار کی دہائی میں مکمل قومی جہد کے طور سامنے آئی۔ بلوچ قومی جدوجہد میں جب خواتین کے کردار کا ذکر آتا ہے تو بانک کریمہ کا نام سرفہرست ہے جن سے قبل گو کہ خواتین تحریک کا حصہ رہے ہیں جیسے کہ 70 کے عشرے میں بلوچ عورتیں شہید کی گئیں اور منڈیوں میں بیچی گئیں وہیں بانک کریمہ نے تحریک کو نئے انداز میں دنیا کے سامنے روشناس کرایا۔

‏‎ بانک کریمہ نے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست میں حصہ لیا اور سال دو ہزار پانچ میں بی ایس او گرلز ونگ تمپ زون کی سربراہ منتخب ہوئیں، اُس وقت قومی جدوجہد میں خواتین کی شرکت بلوچ سماج کے لیے بالکل نئی تھی۔

بانک دو ہزار چھ میں بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کی رکن منتخب ہوئیں تو معاشرے کے فرسودہ رکاوٹوں کو عبور کرتی رہیں، یہ وہ زمانہ ہے جب نواب اکبر بگٹی کی شہادت نے قومی جہد آزادی کا پیغام بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچا کر جہد کو ایک نیا رخ دیا جس سے بلوچ خواتین کا قابل ذکر حلقہ قومی جدوجہد کا حصہ بننا شروع ہوئے اور خواتین کی شمولیت سے بلوچ آزادی کی تحریک کو تقویت ملی۔ جب ظلم و بربریت کا سلسلہ زور پکڑتا ہے تو بہت سے خواتین جہد آزادی کے سیاسی کارواں سے اپنی وابستگی برقرار نہیں رکھ پاتی مگر بانک کریمہ استقامت کے ساتھ دشمن کے سامنے چٹان کی مانند ڈٹی رہیں۔

بی ایس او آزاد کی شال میں منعقد دو ہزار آٹھ کے کونسل سیشن میں جونیئر وائس چیَرپرسن منتخب ہوئیں ۔ دو ہزار نو سے بارہ کے سال بلوچ انسر جنسی کیلئے مشکل ترین تصور کئے جاتے ہیں جس میں دشمن نے بلوچ قوم کے ہر طبقے کو بلا تفریق اپنے ظلم و جبر کا بدترین نشانہ بنایا۔ بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین سنگت ثناء دشمن کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد شہید کر دیے گئے اور وائس چیئرمین ذاکر مجید لاپتہ کر دئے جاتے ہیں جبکہ چیئرمین بشیر زیب کو روپوش ہونا پڑتا ہے۔ اس مشکل ترین دور میں جہاں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندیاں اور کارکنوں پر سختیاں تھیں وہیں بانک کریمہ بلوچ کا راستہ نہ تو تنگ نظر سماجی حلقے اور نہ ہی ریاستی مظالم روک سکے۔

ریلی ہو یا احتجاج یا بی ایس او آزاد کا خفیہ اجلاس،شال سے لے کر کراچی، جھالاوان سے جیونی تک، بانک بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں کی تسلسل کو جاری رکھ کر بلوچ قومی آزادی کے کارواں کو توانا کرتا رہا اور دو ہزار بارہ کے کونسل سیشن میں میں بی ایس او آزاد کے وائس چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔

بلوچستان کے مخدوش حالات میں جہاں ریاست بلوچ قیادت کو جبری گمشدہ اور لاشیں مسخ کرکے پہاڑوں اور ویرانوں میں پھینک رہا تھا ( جبری گمشدگیاں اور بڑے پیمانے پر قتل عام آج تک جاری ہیں ) وہیں بلوچ قومی جہد آزادی میں اندرونی اختلاف بھی جنم لیتے ہیں جو بلوچ قومی تحریک کے لئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوئے ۔

دو ہزار تیرہ میں بی ایس او آزاد کے مرکزی جنرل سیکرٹری رضا جہانگیر اور بی این ایم کے رہنما امداد بجیر کو تربت میں ریاست نے شہید کر دیااور مارچ دو ہزار چودہ کو چیئرمین زاہد بلوچ جبری گمشدہ کرلئے جاتے ہیں ۔یہ بی ایس او آزاد کی تاریخ کا مشکل ترین دور تھا جب بی ایس او میں اختلافات کی وجہ سے تنظیمی دوست مستعفیِ ہو رہے تھے لیکن ایسے سخت حالات میں بھی بانک کریمہ نے تمام مصائب کا بہادری سے مقابلہ کیا اور بی ایس او کو زیادہ پختگی کے ساتھ آگے بڑھایا اور دو ہزار پندراھ کے کونسل سیشن میں بی ایس او کی تاریخ میں پہلی خاتون چیئرپرسن منتخب ہوئے۔

چیئرپرسن منتخب ہونے کے بعد بی ایس او کی مرکزی کابینہ نے انہیں بیرون ملک بلوچ قومی تحریک کے لیے آواز اٹھانے کے لیے کینیڈا بھیجنے کا فیصلہ کیا جس سے بلوچستان کے سیاسی گراونڈ میں ایک خلا پیدا ہوا جو آج تک پر نہیں ہوسکا، وہ اپنا نعم البدل پیدا نہ کرسکے تھے جس سے یہ فیصلہ تنظیم اور تحریک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے دو ہزار پندراھ سے دو ہزار اٹھارہ تک بیرون ملک میں رہ کر ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے ۔آج بلوچ راجی جہد میں خواتین کی ہر صف میں شمولیت و ذمہ داریاں نبھانے میں بانک کریمہ کی جدوجہد کا بہت بڑا کردار ہے کہ انہوں نے بلوچ سماج اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ بلوچ خواتین سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار برابری کی بنیاد پر ادا کر سکتی ہیں اور آج شاری بلوچ کی روپ میں بلوچ خواتین نے تحریک کو نئی جہت عطا کی ہے۔

بانک کریمہ‎ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے تو ریاست دھمکیوں ، گھر پر چھاپوں اور اُن کے لواحقین کی جبری گمشدگی اور شہادتوں کے ذریعے تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کرتی رہی لیکن انہوں نے ہمیشہ دشمن کے ہر حربے کا بہادری سے مقابلہ کرکے اپنی قومی ذمہ داری نبھائیں اور جب انہوں نے بیرون ملک جا کر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کی تو ریاست نے وہاں بھی اپنی حیلہ سازیاں کرکے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی لیکن بانک نے اپنا رستہ چن لیا تھا اور اپنی ساری زندگی بلوچ تحریک کے لیے وقف کر دی تھی ۔ وہ بی این ایم جوائن کر چکی تھیں اور انہیں بین الاقوامی فورمز پر بلوچ قوم کی نمائندگی کرنی تھی لیکن اس سے پہلے ہی انہیں کینیڈا میں شہید کر دیا گیا۔

دنیا میں نہ صرف پاکستان بلکہ سامراجی حکومتیں بیرون ممالک اپنے مخالفین کو مارنے کے لیے مختلف طریقے آزماتے ہیں تاکہ اُن کی تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔ ساٹھ کی دہائی میں اسرائیل نے بیرون ملک فلسطینی رہنماؤں کو قتل کرنے کے لیے اپنا خفیہ دستہ (اسکواڈ) بنایا اور یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں پی ایل او کے رہنماؤں کو مارنے میں ملوث رہا ہے ۔ ترکی مختلف ممالک میں کرد قیادت کو نشانہ بنا رہا ہے اور سعودی عرب جمال خشوگی کو ترکی کی سرزمین پر اپنے سفارتخانے میں قتل کرچکا ہے ( ترکی سے مبینہ طور پر بلوچ رہنما گلزار امام کا اغوا بھی تحریکی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ہیکہ کس طرح دشمن اعلیٰ سطح کےرہنماء کو ٹریپ کرنے میں کامیاب ہوا ) ۔

ایران، روس، یورپی ممالک، شمالی کوریا اور امریکہ بیرون ملک اپنے مخالفین کو زہر دے کر یا دوسرے طریقے استعمال کرتے ہوئے قتل کرچکے ہیں۔عارف بارکزئی، استاد اسلم بلوچ، ساجد حسین، بانک کریمہ، انجینئر عبدالرزاق اور مغربی بلوچستان ؤ افغانستان میں بلوچ جہدکاروں کی شہادتیں اسی پالیسی کی کڑیاں ہیں کہ وہ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تھے اور دشمن اُن کی جہد سے خائف تھا ۔

بلوچ قیادت کو بیرون ملک نشانہ بنا کر دشمن بلوچ قوم کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ زیادہ طاقت ور ہے اور جہاں چاہے قومی تحریک سے وابستہ رہنماؤں کو نشانہ بنا سکتا ہے تاکہ وہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور پر نفسیاتی طور پر اثر انداز ہوسکے اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا سکے کہ وہ طاقتور ریاست سے نہیں لڑ سکتے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور اور قابض قوت جس قدر بھی توانا ہو مگر محکوم قوموں کی جہد تسلسل کے سامنے بے اثر ہوکر ناکامی اُن کی مقدر بن جاتی ہے۔ جب بانک کریمہ کی میت بلوچستان پہنچی تو ریاست کے خوف کی ایک جھلک دیکھی گئی کہ ریاست بلوچ عوام کے سامنے کتنی بے بس، لاچار اور خوف زدہ ہے۔ ( اگست دو ہزار چھ کو نواب اکبر خان بگٹی کی میت کے ساتھ بھی یہی عمل روا رکھا گیا )۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ کے پاس دشمن کی پالیسیوں کے خلاف ہر جہت (نفسیاتی، مسلح محاذ یا سیاسی جدوجہد) پر حکمت عملی کا فقدان ہو اور وقت کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں تبدیلی نہ ہو تو دشمن تحریکی رہنماؤں کو نشانہ بنا کر جہدوجہدکو کمزور کرسکتا ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں