اُجالوں کا پیامبر طارق کریم – محسن رند

576

اُجالوں کا پیامبر طارق کریم

تحریر : محسن رند

دی بلوچستان پوسٹ

کبھی کبھی انسان عظمتوں کے سارے درجے پار کرکے وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں ہر ایک کا پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ یوں تو یہ تحریر دو دن پہلے ہی لکھ لیا تھا لیکن اس کا عنوان مجھے شیئر کرنے سے روک رہا تھا. سوچ رہا تھا ایسا کون سا عنوان ہو جو طارق کریم جیسے عظیم شخصیت کی مہانتا کو ظاہر کرے تو یہ عنوان سوجھا جس میں اس کے شخصیت کی جھلک ہے.

بسیمہ وہ گاؤں تھا جسے بلوچستان کا علاقہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا، وہاں کے خاموش باسیوں کی وجہ سے جو صرف اپنے لئے جی رہے تھے۔ تب طارق کریم نے اس گاؤں کو بدلنے کی ٹھانی وہ گاؤں جو لاشعوری کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا. جہاں تعلیم یافتہ جوانوں کی کمی نہیں تھا لیکن ان میں اکثر جین ریپلیکشن(Gene Replication) اور آرک رزیسٹینس( Arc resistance) ٹرمز کو جاننے والا ہی علم تھا. وہ تعلیم جس سے انسان کو شعور حاصل ہو وہ اپنے قوم و سرزمین سے محبت کرنا سکھائے وہ علم بسیمہ میں کسی کے پاس نہیں تھا.

پاولو فرارے کے مطابق علم وہی ہے جس سے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے.جبکہ بخو جان جان چکا تھا کہ ریاست پاکستان کے ادارے ہمیں ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو خود میں ایک مسئلہ ہے۔ جو تعلیم اپنے زمین سے بیگانہ کردے۔

طارق کریم جانتا تھا ہم جو علم حاصل کررہے ہیں در اصل وہی تو اصل خرابیوں کی جڑ ہے۔ کیونکہ نوآبادیاتی نظام تعلیم میں مقامی لوگوں کو ایسی تعلیم کبھی نہیں دیا جاتا جس سے انہیں اپنی تاریخ کا صحیح ادراک ہو. جو اپنی سرزمین کی اہمیت جانیں۔ جنہیں حاکم کے نفسیات کا پتہ ہو کہ محکوموں کے زہن کیسے کنٹرول کیئے جاتے ہیں۔ جنہیں اُن قوموں کے بارے میں بھی علم ہو جو آج نہیں رہے.

شعور و آگاہی کی آگ اپنے دل میں لئے بخو جان بی آر سی خضدار میں ہر کسی سے اس بحث میں پڑا تھا بلوچوں کی تاریخ بلوچستان پر برطانیہ اور پاکستانی قبضے کے بعد کی صورتحال اور اب اس غلامی کا احساس جوانوں میں کیسے پیدا کیا جائے کہ ہم غلام قوم ہیں۔ اس غلام قوم کے جوانوں پر کیسی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

دن کو کالج اور یونیورسٹی سٹڈی سرکلز میں بلوچستان سے محبت کا احساس پیدا کرنے کا جتن کرتا اور رات دیر تک کتابیں پڑھتا رہتا اور چھٹیوں میں جب بسیمہ جاتا اپنا سارا وقت دوستوں کے بیٹھکوں میں قوم کے بقاء کے لئے قربانیاں دینے کا جذبہ پیدا کرتا۔

جو آہستہ آہستہ رنگ لا رہا تھا۔ کچھ ہی وقتوں میں بسیمہ جیسا چھوٹا شہر مزاحمت کا گڑھ بن گیا۔ طارق کریم کو اگر بسیمہ کا سیاسی استاد کہیں تو بے جا نا ہوگا۔ کیونکہ اسی نے خود کو شعور کی آگ میں جلا کر پورے شہر کو جہد کی راہ دکھائی۔

آج بھی بسیمہ میں اگر کوئی مزاحمت کررہا ہے تو وہ طارق بخو جان کی قربانیوں کا اثر ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے 2009 میں جب ایک خضدار کے دوست نے میری ملاقات طارق سے کرائی. سبز رنگت بڑے بال اور دل میں بلوچ اور بلوچستان کے لئے بے انتہا محبت لئے کسی جادوگر کی مانند کچھ ہی لمحوں میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے فن سے آشنا تھا.

اُس وقت مجھے نہیں پتا تھا میں اُس مہان انسان کے ساتھ بیٹھا ہوں جس نے قوم کے بقاء کی ایسی راہ چُنی ہے جو ہر ایک کے لئے چُننا آسان نہیں.

اسلام, پاکستان,بلوچستان اور بلوچ قوم ہمارے موضوع کا حصّہ تھیں.
طارق نے کہا،مجھے لگتا ہے خدا اگر انسانوں سے اپنی محبت 70 ماؤں کے بجائے اپنی سرزمین سے محبت کرنے والے شخص کی محبت سے تشبیح دیتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔

کیونکہ مائیں صرف اپنے بیٹے کا بھلا چاہتی ہیں جبکہ دوسرے ماؤں کے بیٹوں کے جینے مرنے سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن گلزمین و قوم سے محبت کرنے والے ان سارے لوگوں کا بھلا چاہتا ہے یہاں تک کہ وہ جان بھی قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ مائیں اولاد کے لئے بہت کچھ کرتی ہیں لیکن جب انہی ماؤں کو سرزمین سے محبت ہوتی ہے تو وہ اپنے اولاد بھی قربان کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ کیا ایسی کوئی محبت ہوسکتی ہے ؟

میں اس کے مثال سے بلوچستان سے اس کے محبت کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں ان آنکھوں میں قوم کی لاچارگی اور آنے والے خوبصورت وقت کا احساس دیکھ پارہا تھا۔

تب “مارو پھینکو” پالیسی شروع ہوچکا تھا۔ لوگوں کو اٹھانا پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں گرانا روز کا معمول تھا۔ طارق کریم (بخو جان) جانتا تھا اس کا حشر بھی یہی ہوگا لیکن اس نے شعور کی دولت بانٹنے کا وعدہ کرلیا تھا۔ وہ امر ہونے کے راہ پر تھا۔ وہ اکثر دوستوں سے کہا کرتا تھا۔ اگر میں پکڑا گیا تو میرا قیمہ بنا ڈالیں گے۔ پھر بھی وہ ڈرا نہیں۔آخر کار ایسا ہی ہوا۔ جب اس کا مسخ شدہ لاش پھینکا گیا تو اس کے چہرے کے آدھے حصے کو تیزاب سے جلایا گیا تھا اور آدھے حصے کے گوشت کو خنجر سے چیر کر ادھیڑا گیا تھا۔ اس کے سینے پر گولیوں کے نشان تھے۔گوکہ وہ جسمانی حوالے سے ہم سے دور ہوا لیکن مزاحمت اس کی موجودگی ظاہر کرتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں