کریمہ کی قبر میں معصوم ہزارہ دفن مت کرو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
روسی مصنف الیگزینڈرسولنسٹین نے اپنے جگ مشہور نوبل انعام یافتہ ناول”کینسر وارڈ“ میں لکھا تھا کہ
”ہم کس بے ہودہ بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں
جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے دھو دیا جاتا ہے!
ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے
اور کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جاتا ہے
دیکھو ہم کس بے حس اور بے ہودہ معاشرے میں جی رہے ہیں“
جہاں ہم جینے کی سزا میں جی رہے ہیں یہاں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک نہیں یہ بھی کوئی کینسر وارڈ ہو جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے،ایک خون کو دوسرے خون سے کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفنا دیا جاتا ہے اور ملک ہے کہ پھر بھی چلتا رہتا ہے۔
کیا ملک بس ان سرحدوں کا نام ہے؟جہاں فوجی وردی میں ملبوس کچھ حساس دل رکھنے والے اور کچھ نیم مردہ ربوٹ اپنی ڈیوٹیاں دیں کچھ ڈرے رہیں،کچھ سہمیں رہیں اور سب یوں ہی چلتا رہے؟
سرحدوں سے گزرتے انسان گولیوں کے کام آئیں اور سرحدی آکاش کی حدود سے پرندے یہ سب کچھ دیکھتے گزرتے رہیں آزاد اور بے فکرے!
کیا ملک بس ایسی بے ہودے سیاست کا نام ہے جہاں گلے کٹتے ہوں اور ماؤں کو ماتم کی اجازت بھی نہ ہو اور ننگی برہنہ لاشیں اس انتظار میں روڈ کے کنارے پڑی ہوں کہ کب وقت حاکم آتا ہے اور کب یہ لاشیں سپردِ خاک ہو تی ہیں؟
کیا ملک بس غلط سلط معلومات کا نام ہے جہاں کچھ بھی اچھا نہ ہو اور سب اچھا ہونے کی رٹ لگائی جا رہی ہو؟
اب تک اس ملک میں تو یہی ظاہر ہوا ہے کہ یہ ملک،جبری گمشدگیوں،ان جبری گمشدگیوں میں طویل سفروں،ماؤں کی مسافریوں اور بہنوں کا نام ہے
اور اب تک یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ یہ ملک طویل احتجاجی کیمپوں کا نام ہے
اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اس ملک میں بے نامی لاشیں اور بے نامی قبریں بہت ہیں جن کا کوئی وارث نہیں
اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اس ملک میں مسخ شدہ لاشوں ایسے مل جاتی ہیں جیسے بنی اسرائیل کو من و صلوا ملا کرتا تھا
اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اس ملک میں جب بھی کسی پرانے خون کو نئے خون سے رنگا جاتا ہے تو وہ تجربہ آل ِ ہزارہ،اہلیان ہزارہ پر کیا جاتا ہے۔
اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ جب کسی پرانے درد کو کسی نئے درد سے ڈھکنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس میں بھی ہزارہ کام میں آئے ہیں
اور یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ جب کسی پرانے قبر کے پھر سے اُٹھ آنے کا خدشہ ظاہر ہوا ہے تو پھر سے ہزارہ کی قبروں کو کھودا گیا ہے بلکل نئے سرے سے۔
اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کسی پرانی قبر نے انقلاب کی کروٹ لی ہے تو اس قبر میں ہزارہ کو اجتما عی دفن کر دیا گیا ہے۔
کینسر وارڈ کے خالق الیگزینڈرسولنسٹن نے بلکل درست لکھا ہے کہ
”ہم کس بے ہودہ بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں
جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے دھو دیا جاتا ہے!
ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے
اور کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جاتا ہے
دیکھو ہم کس بے حس اور بے ہودہ معاشرے میں جی رہے ہیں!“
ایسی ہی ایک خون
ایسا ہی ایک درد
ایسی ہی ایک قبر
بلوچستان میں نئی صبح، نئے انقلاب کی پیش رو ثابت ہو رہی تھی کہ اس میں اس کینسر زدہ ریا ست نے گیارہ ہزارہ مزدور دفن کر دیے،وہ ہزارہ مزدور جو نہتے تھے،جومعصوم تھے،جو ریا ست کی شیطانی پالیسیوں سے بے علم تھے،جو کچھ نہ جانتے تھے جنہیں کچھ خبر نہ تھی۔ان سب کو اس قبر میں دفن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قبر
دیس کی جدو جہد کی ہے
جو قبر دیس کی محبت کی ہے
جو قبر دیس کی معصوم مسکراہٹ کی ہے
جو قبر دیس کی میٹھی میٹھی ہواؤں کی ہے
جو قبر سرخ رنگ کی ہے
جس رنگ سے پورے بلوچستان کو رنگ جانا تھا
جو قبرآزادی کی علامت کی ہے
جو قبر ہر اس جدو جہد کی ہے جو دیس کے لیے تھی
جو قبر ہر اس قدم کی ہے جو دیس کی آزادی کے لیے اُٹھایا گیا
جو قبر دیس کی تقریر کی ہے
جو قبر دیس کی تحریر کی ہے
جو قبر ان انسانوں کی ہے جو دیس کی راہ میں کام آئے
جو قبر انقلابی روح کی ہے
جو قبر ان آوازوں کی ہے جنہیں دیس کی محبت میں مارا گیا
جو قبر ان گیتوں کی ہے جو دیس کے لیے لکھے گئے پر قبروں کی نظر ہوئے
جو قبر ان سازوں کی ہے جو دیس کی محبت میں بجنے تھے
جو قبر ان دہنوں کی ہے جو ابھی تخلیق کے مراحل سے گزر رہی تھی کہ ماری گئی
جو قبر کریمہ کی ہے
جو قبر کریمہ کی جدو جہد کی ہے
جو قبرکریمہ کے سرخ سفید رنگت کی ہے
جو قبر کریمہ کے انقلابی آواز کی ہے
جو قبر کریمہ کی شاعری کی ہے
جو قبر کریمہ کے اُٹھتے ہاتھوں
اور چلتے پیروں کی ہے
اس ریاست نے الیگز ینڈر سولنسٹن کی اس بات کی ہو بہ ہو پیر وی کی ہے کہ
”ہم کس بے ہودہ بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں
جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے دھو دیا جاتا ہے!
ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے
اور کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جاتا ہے
دیکھو ہم کس بے حس اور بے ہودہ معاشرے میں جی رہے ہیں!“
دھرتی بلوچستان پہلے سے ہی کریمہ کے درد سے گزر رہی تھی،وہ ایسا درد تھا کہ ڈیرہ غازی خان سے لیکر جھٹ پٹ تک ایک موم بتی کی شکل میں جل اُٹھا تھا اور ان جلتی موم بتیوں کی روشنی میں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ کریمہ کا خون انصاف کا تکازہ کر رہا ہے اور یہ خاموش اور اندھا قتل اتنی جلدی خاموش نہیں ہونے والا
پر
پھر وہی ہوا
جو ہوتا
ہوا
آرہا ہے کہ
”ہم کس بے ہودہ بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں
جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے دھو دیا جاتا ہے!
ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے
اور کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جاتا ہے
دیکھو ہم کس بے حس اور بے ہودہ معاشرے میں جی رہے ہیں!“
اور ریا ست نے ایک درد میں دوسرے درد کو بھر دیا
ایک اور قبر میں گیا رہ لاشیں بھر دیں
اور ایک اور ون سے ایک اور خون دھو دیا!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں