آؤ تنقید تنقید کھیلتے ہیں
تحریر: سفر خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں ہر کوئی کسی نا کسی پیشے سے وابسطہ ہوتا ہے ہر کوئی پھر اسی پیشے کے بارے میں سوچتا و غور کرتا ہے اور اپنے پیشے سے وابسطہ لوگوں سے تعلقات استوار کرتا ہے،اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو اس کے دوستوں کی اکثر یت ڈاکٹر ہوتے ہیں، ٹیچر کے بھی اسی طرح اور کاروباری شخصیت اور اس کے دوستوں کی اکثریت کاروباری شخصیت ہوتے ہیں، اور مذکورہ لوگوں کی باتیں اور ڈسکشن اکثر اپنے اپنے پیشے کے متعلق ہوتے ہیں ڈاکٹر صحت کے بارے میں باتیں کرتا ہے کاروباری شخصیت مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ ٹیچر تعلیم و درس کی باتیں کرتا ہے اور اسپورٹس مین اسپورٹ کی باتیں کرتا ہے ۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ بیکار بیٹھنا بھی اپنے آپ میں ایک کام ہے مگر جسطرح ہم بیکار کو تشریح کرتے ہیں اصل میں بیکار کی تشریح وہ ہوتی ہی نہیں ہے انسان اپنے پیدائش سے لے کر موت تک بیکار نہیں ہوتا مطلب وہ ہر وقت کسی نا کسی عمل میں مصروف عمل ہوتا ہے ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے فائدہ کاموں میں وقت گزار رہا ہے مگر وہ عمل کر رہا ہے عمل فائدہ مند ہے یا بے فائدہ مگر وہ ایک عمل کررہا ہے فرض کریں کوئی فضول بیٹھ کر سگریٹ پی رہا ہے وہ بیکار نہیں ہے وہ ایک عمل کررہا ہے ہاں وہ عمل فائدہ مند ہے یا بے فائدہ وہ الگ بحث ہے۔
اور جب انسان انہی بے فائدہ اعمال میں وقت گزارنے لگتا ہے تو اس کے ذہن میں کئی سوالات ایک ساتھ اٹھنا شروع کرتے ہیں وہ انہی سوالات کے گرد گھوم کر اپنے اصل شناخت کو کھو دیتا ہے اور وہ ڈپریشن انگزیٹیا شنزوپینیا سمیت مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے اور کہتے ہیں جب انسان ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو وہ ہر چیز میں کمی دیکھتا ہے اور وہ ہر چیز پہ نقطہ چینی و تنقید کرنے لگتا ہے دراصل وہ بندہ کہیں اور کا ضدکہیں اور نکالنے کی کوشش کرتا ہے ۔
آج ہمارے یہاں اس طرح لوگوں کی بڑی تعداد پڑی ہوئی ہے، ہر چیز میں اگر کمی نظر آئے تو پہلا حرف یہی ہوگا بلوچوں میں لیڈر نہیں ہے یا لیڈر کی نااہلی اور کوتاہیاں ہر روز بڑھ رہی ہیں کہنے کا مطلب ہے ہر کوئی اپنے سے اوپر کے لوگوں کو موردالزام ٹہرانے کی کوشش کرتا ہے، اگر کوئی رات کو اپنے بیوی سے لڑے صبح ہوتے ہی فیس بک پوسٹ یا وٹس اپ اسٹیٹس لگا کر دل کی بھڑاس لیڈر پہ نکالتا ہے۔
یہ بھی نہیں ہے کہ آج خامیاں اور کوتاہیں موجود نہیں ہیں، بہت ہیں مگر جس طرح ہم بیان کرتے ہیں اس حد تک بھی نہیں ہیں اور صرف کسی ایک دائرے تک محدود بھی نہیں ہرکسی کے اندر موجود ہیں ہر کسی میں ایک دوسرے سے زیادہ ہیں مگر ہم ہر وقت خود کو بری الزمہ سمجھ کر دوسروں کو موردالزام ٹہراتے ہیں، اگر کوئی ساری رات موبائل یا لیپ ٹاپ ہاتھ میں لئے پوری رات سنی لیونی، میاں خلیفہ سمیت پتہ نہیں کن کی تصویروں اور ویڈیوز کو چاروں اینگل سے زوم کرکے دیکھتا ہے اور رات چار چار بجے تک موبائل پہ عمران ہاشمی کی روح کو اپنے میں پا کر موبائل کو چاروں اطراف سے اٹھائیس طریقے سے کِس کرکے سونے سے پہلے جسم کی تمام گرمائش نکال کرسوتا ہے اور صبح اٹھتے ہی پہلی فرصت میں یہی کہتا ہے، پتہ نہیں بلوچوں کی قسمت کب بدلے گا اور بلوچوں کو کب سچے اور ایماندار لیڈر نصیب ہونگے ۔
کبھی کبھار انسان ان جیسوں کو دیکھتا ہے تو آدمی کا بھروسہ جمہوریت پہ اٹھ جاتا ہے، جب ہر کسی کے دل میں جو آتا ہے اور بولتا ہے اور آخر میں یہ الفاظ کہہ کر اپنے جملوں کا اختتام کرتا ہے کہ مجھے بولنے اور تمہیں سننے کا حق جمہوریت نے دیا ہے کیا واقعی یہ لوگ جمہوریت سے واقف ہیں؟ کیا یہ جانتے ہیں جمہوریت کسے کہتے ہیں؟ کیا واقعی جمہوریت نے بکواس کرنے اور سننے کا حق ہر کسی کو دی ہے؟ اور پتہ نہیں جمہوری عمل میں انہیں صرف تنقید کے نام پر بکواس کرنے کی حق کیوں یاد ہے اور باقی کچھ بھی نہیں، جہاں تک مجھے پتہ ہے جمہوریت میں صرف تنقید کرنے کی حق موجود نہیں ہے دیگر بہت سی چیزیں ہیں مگر وہاں یہ خود سوالیہ نشان بنے ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں عجیب قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں خود بخود دانشور بنتے ہیں خود بخود تھنک ٹینک بنتے ہیں خود بخود معاشیات کے ماہر بنتے ہیں اور خود بخود ماہر لسانیات و ادیب بنتے ہیں، کتابوں کا رٹا لگا لگا کر ایسی مثالیں دیتے ہیں انسان حیران و دنگ رہ جاتا ہے، ایسا بھی ہوسکتا ہے؟سیاسی اصطلاحات وغیرہ استعمال کرکے ناہی انہیں کچھ پتہ ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے اور ناہی آگے سننے والے کو بس گاڑی کی شیشے کے آگے رکھے بندر کی طرح بلاوجہ سر ہلانا پڑتا ہے۔پھر بھی آخری جملہ یہاں یہ آکر ختم ہوتا ہے بلوچوں کی قسمت اس وقت تک نہیں بدلے گا تب تک اچھے لیڈر اس کو نصیب نہیں ہونگے ۔
اگر کوئی پوری رات یہ سوچ کر گزارتا ہے کہ کل کس گلی کوچے ،ہاسٹل ،کالج یا یونیورسٹی کے سامنے کن کن جگہوں پہ اپنا فون نمبر پھینکوں اور کوئی غلط سے مجھے کال کرکے اس سے رات بھر باتیں کیا کروں اور صبح ہوتے ہی وہی کارل مارکس کی داس کیپیٹل بغل میں لئے کسی بیٹھک میں بیٹھے چار پانچ دوستوں کی بیچ اپنے آپ کو انیسویں صدی کی کارل مارکس اور بیسویں صدی کی لینن ظاہر کروں یہ کہہ کر کہ پتہ نہیں ہمارے لیڈروں کو کب سمجھ آ جائیگا کہ قوم پرستی سے بلوچوں کو کچھ فائدہ پہنچنے والا ہی نہیں ہے۔
مگر اصل میں کسی کو ہمت ہو تو وہ جرت کرکے اس کے بغل میں جو داس کیپیٹل کتاب ہے وہ اسی کی قسم کھا لے کہ آپ نے یہ کتاب پوری پڑھی بھی ہے یقیناً اس وقت اس کی منہ دیکھنے والی ہوگی، اور حقیقت میں ان جیسوں کے پاس قوم پرستی ہو سوشل ازم یا کمیونزم کے بارے میں معلومات اس بکھاری کی جیسی ہے کہ پورا دن کسی چوک پہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے بھیک مانگتا ہے اور مسجد میں جانے کی فرصت ہی نہیں اس کے پاس۔
اگر کسی نے بلوچ و بلوچستان کی لاج نہیں بھی رکھا ہےاور دشمن کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوا ہے اور ،، میراث،، اور سید ظہور شاہ ہاشمی کی کتاب ،،بلوچی سیاھگ راست نویس،، چار پانچ مرتبہ رٹا لگا کر کچھ سطروں کو یاد بھی کی ہوئی ہے اور کچھ رومانوی افسانے بھی لکھی ہو اور آگے چل کر خود بخود کچھ نئے الفاظ اپنے کسی بے فائدہ تحریر میں استعمال بھی کرتا ہے اور جب ان کی معنی کسی کو معلوم بھی نہیں ہوں اور بلوچی کی پہلی ڈکشنری ،،سید گنج،، کو چاٹ کر بھی آپ کو ان کے معنی نہیں ملیں اور آپ اپنے کسی قریبی شاعر یا کسی اور سے پوچھیں اور وہ بھی ملامت ہوکر یہ کہے کہ مجھے پتہ نہیں اور پھر خود اسی سے پوچھ لیں اور اپنی طرف سے ایک معنی بھی بتائے اور پھر آپ اس سے پوچھیں پھر یہ الفاظ سید گنج یا بلوچی کے دوسرے کسی ڈکشنری موجود نہیں ہیں تو یہی کہتا ہے زبان میں ہر روز نئے نئے الفاظ دریافت ہوتے ہیں ایک حد تک مان بھی لیتے ہیں ایسا ہوتا بھی ہے مگر اسے کس نے دریافت کیا کس ادارے نے اس الفاظ کو استعمال میں لانے کی منظوری دی ہے تو جواب پھر جناب ایک ہی ہے بلوچ لیڈروں نے بلوچی کے لئے کیا کیا ہے؟
پھر انسان سوچ میں پڑجاتا ہے واقعی لیڈر اسی طرح ناکارہ ہیں؟ یا ہم خود نفسیاتی مریض ہیں؟ جو بھی ہے دونوں باتیں سوچنے والی باتیں ہیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔