بلوچ دھرتی کا سچا رفیق، شہید محی الدین کرد۔ تحریر : سفر خان بلوچ

844

بلوچ آزادی کی خون ریز تاریخ میں بلوچستان کے کوچے کوچے سے ہر دور میں مادر وطن کے سچے عاشق و رفیق اپنے دلوں میں آزادی کی امید لئے دشمن سے برسرپیکار رہے ہیں،بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح وادی شالکوٹ سے سینکڑوں فرزندان وطن بھی بلوچ دھرتی سے اپنے عشق و سچی شجاعت کو اپنا خون بہا کر ثا بت کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔کلی اسماعیل، سریاب اور نیو کاہان وادی کے ان علاقوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں ہر دور میں لمبی فہرستوں پر محیط قربانیوں کی تاریخیں رقم ہوتی رہیں ہیں۔

انہی فہرستوں میں شامل ایک نام سنگت محی الدین کرد کا بھی ہے جو سریاب کے علاقے برما ہوٹل میں پیدا ہوئے۔ مجھ سمیت شاید کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ عارف والا کی تنگ گلیوں سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان اتنی جلدی عظمت کی ان اونچائیوں کو سر کر لے گا اور اس عظیم مرتبے پر فائز ہو گا کہ جہاں حمید و مجید اور قمبر و امیر جیسے شخصیات براجمان ہیں.

یقیناًشہید محی الدین کرد کی شخصیت مجھ جیسے کسی کم فہم و نا سمجھ کے تعارفی جملات کا محتاج نہیں پر اس نیت اور ارادے کو پیش نظر رکھ کر قلم اٹھائی ہے کہ اس سماج تک شہید محی الدین کا پیغام پہنچا سکوں جس کی اقدار اور روایات کا تحفظ کرنے اور جس کی تشکیل نو کیلئے شہید محی الدین نے اپنی ساری زندگی صرف کی اور جس کی بقا کی خاطر خوشی خوشی موت کو گلے لگا لیا۔

جہاں آج بلوچ عوام ایرانی و پاکستانی قبضہ گیریت کے سائے تلے معاشی و اقتصادی تباہی، سماجی بدحالی اور سیاسی پابندیوں کا شکار ہیں تو وہیں بلوچ نوجوانوں کا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو سیاسی و سماجی شعور سے لیس اپنے اردگرد پائی جانے والی ان تمام خصلتوں کا ذمہ دار، قابضین کی دی ہوئی طوق غلامی کو قرار دیتی ہے اور بلوچ سماج میں ابھرے اس تباہ کن صورتحال کا حل صرف اس عظیم مقصد میں پیوست دیکھتی ہے جسے قومی آزادی کہا جاتا ہے اور جس کے حصول کی تگ ودد میں پچھلے کئی صدیوں سے ہزاروں محی الدین بخوشی شہادت جیسی باعزت موت کو گلے لگاتے رہے ہیں۔

اسی سوچ سے متاثرہ انقلابی نوجوانوں میں سے شہید محی الدین کرد بھی ایک تھے، اپنے دور شناسائی کے چند عرصے میں میں نے سنگت محی الدین کو قومی سوچ سے لیس، گروہیت، علاقہ پرستی و قبیلہ پرستی جیسی بیماریوں سے پاک پایا، وہ قومی سوچ کو لے کر ہمیشہ پر عزم، اپنی طبعت کے اعتبار سے ہمیشہ مستقل مزاج اور اپنے افکار و نظریات پر سختی سے کاربند انقلابی تھے۔ بلوچ قیادت کے بیچ اختلافات کے دور عروج میں جہاں ہم جیسے مباحثوں میں بے لگام ہو کر خود سے جڑے گروپوں کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر مقصد تک رسائی کیلئے ناگزیری کا لبادہ چڑھا کر پیش کرتے تو وہیں محی الدین جیسے دوست اپنے خیالات کے اظہار کو لے کر بہت ہی محتاط رہتے اور دوران گفتگو کسی ایسی بات کی ادائیگی سے بھی گریزاں رہتے کہ جس سے یہ غلط تاثر بھی ابھرے کہ وہ کسی مخصوص گروہ کو دوسروں پر ترجیح دے رہے ہوں۔ شہید محی الدین کرد خواہ خود بی ایل اے کے پلیٹ فارم سے جدجہد کرنے والے ایک قومی سپاہی تھے، پر مہینوں پہ محیط جدائی کے بعد جب کبھی بھی سریاب کے چائے خانوں میں ان سے ملاقات ہوتی تو وہ بجائے میرے حلقہ رہائش میں بی ایل اے کی کارکردگی کو لے کر سوال کرتے اس کے
برعکس وہ اپنے ان سوالات کا محور ہمیشہ علاقے میں تحریکی نشیب و فراز، تحریک کو لے کر عام لوگوں کی سوچ و دوشمن کی وہشت بنایا کرتا تھا۔ شہید محی الدین صحیح معنوں میں پاکستان و ایران کے خلاف بلوچوں کے سخت اور آزادی کے مسئلے کو لے کر انتہاپسندانہ رویوں جبکہ بلوچ آزادی پسند حلقوں میں مفاہمت و مصلحت پسندی کی ایک مثال تھے۔

بلوچ دھرتی کے اس عظیم سپوت و رفیق نے اپنے قول و فعل پر عملًا کاربند ہوتے ہوئے 6 مارچ 2016 کو بولان میں شروع کئے جانے والے پاکستانی فوجی آپریشن کے دوران جام شہادت نوش کی اور ہم پر قومی زمہ داریوں کا ایک بھاری بوجھ چھوڑتے ہوئے خود نمیرانی کے راستے کا مسافر بن گیا۔

آج کی اس بھاگ دوڑوالی زندگی میں جہاں ہر کوئی اپنے ذاتی معاملات زندگی میں اس قدر پھنسا ہوا ہے کہ اسے اپنے ہمسائے کا حال پوچھنے تک کی فرصت نہیں ایسے میں ایک پورے سماج کی تشکیل نوکا عزم رکھنے والے، بلوچ ماووں کی آنسوؤں اور بلوچ بہنوں کی سسکیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے شہید محی الدین کرد جیسے لوگ واقعی میں نایاب اور عظیم ہیں۔جن کی انقلابی خدمات کا ادارک اور قومی تحریک آزادی میں ان کے بیش بہا قربانیوں کی قدر بلوچ سماج سے جڑے ہر ذی شعور فرزند پر عائد ہوتی ہے۔ قومی تحریک سے جڑے ہر انقلابی پر اس بات کا ادارک ہونا لازم ہے کہ جس تحریک سے ہم آج جڑے ہوئے ہیں خواہ وہ کتنی ہی کمزور یا طاقتور کیوں نہ ہو اس کی بنیادیں استوار کرنے اور اسے ایندھن فراہم کرنے میں شہید محی الدین و ان جیسے ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا ہے اور ہمارا اپنے قومی و انقلابی ذمہ داریوں سے منحرف ہونا،تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرنا نہ صرف شہید محی الدین جیسے قومی شہیدوں کے خون کے ضیاع کا سبب بنے گی بلکہ تحرک کے خاتمے کی صورت میں پوری بلوچ قوم کے اجتمائی موت کو بھی دعوت دے گی جس کے اثرات سے بلوچ سرزمین پر آباد کوئی بھی محفوظ نہ رہ پائے گا۔

اب مجھ سمیت بلوچ سماج سے جڑے ہر ایک پر اس فرض کا سختی سے اطلاق ہوتا ہے کہ وہ حصول آزادی و اس فکر کی آبیاری کیلیئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں جس کے سائے تلے شہید محی الدین کرد و دیگر تمام بلوچ شہدا نے اپنی زندگیوں کو قربان کیا۔