بلوچستان میں لوگ ایک پریشان کن صورتحال سے گزر رہے ہیں : بی ایچ آر او

231

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس بلوچ نے جرمنی میں بی آر ایس او کے پروگرام میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن پیش کیا ۔

عبداللہ عباس بلوچ نے بلوچستان میں تعلیم کی مخدوش صورت حال، صحت کے سہولیات کی فقدان، دوران پیدائش بچوں کے اموات سمیت فوجی آپریشنوں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین صورت حال پر اپنے خیالات پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ایک خطہ ہونے کے باوجود وہاں 80فیصد لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں،بیشتر علاقوں میں پینے کے صاف پانی، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق بلوچستان دوران زچگی 100,000میں 785خواتین مرجاتے ہیں، اس کے علاوہ پیدائش کے فوراََ بعد 1000میں سے 158بچے مر جاتے ہیں۔

عبداللہ عباس بلوچ نے تعلیم کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تعلیم فراہم کرنا ریاست کی اہم زمہ داری اور لوگوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے،لیکن بلوچستان میں اسکول جانے کی عمر کے 70 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں شامل 5000اسکول ایسے ہیں جو کہ صرف کاغذات میں موجود ہیں، گراؤنڈ میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ 80فیصد سرکاری اسکولوں میں پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی ضرورتیں میسر نہیں ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ تعلیم کے شعبے میں سرگرم پروفیسرز اور تعلیمی ماہرین کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے۔ صباء دشتیاری اور زاہد آسکانی سمیت متعدد ایسے تعلیم دوست قتل ہوچکے ہیں جو کہ تعلیم کے حوالے سے کیمپین کررہے تھے۔

عبداللہ عباس بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ پریشان کن صورت حال سے گزر رہے ہیں، ان تمام مشکلات کی اپنی جگہ موجودگی کے باوجود سیکیورٹی فورسز کی کاروائیاں انسانی حقوق کی صورت حال کو سنگین کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں متحرک سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 20,000 سے زیادہ افراد جبراََ غائب کیے جاچکے ہیں، غائب شدگان میں طلباء رہنماء زاکر مجید، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں طلباء اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگ شامل ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اگر ان مغویان کی جانب سے کوئی ایسی سرگرمی سرزد ہوئی ہو جو کہ ریاستی آئین سے متصادم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے۔ لیکن بجائے یہ کہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز اس تجویز پر عمل کریں، مغویوں کی مسخ شدہ لاشیں مل برآمد ہورہی ہیں۔ 2009کے بعد سے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق 2009سے اب تک 3000لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ برآمد شدہ ان لاشوں میں کم عمر طالبعلوں سے لیکر عمر رسیدہ لوگوں کی لاشیں بھی شامل ہیں، جو وقتاََ فوقتاََ ویران علاقوں یا سڑک کناروں سے پڑی ملی ہیں۔2014 کو خضدار کی تحصیل توتک سے ایک اجتماعی قبر دریافت ہوگئی، لیکن دریافت کے اگلے روز ہی ایف سی اس علاقے کو عام لوگوں کے لئے سیل کردیا۔ اس واقعے کے پہلے روز مذکورہ قبر سے 13لاشیں نکالی گئی، جن میں دو کی شناخت اُن کے جیبوں میں موجود شناختی دستاویزات سے ہوگئی۔ ان دونوں کو ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ضلع آواران سے اغواء کیا تھا۔ اسکے علاوہ پنجگور اور ڈیرہ بگٹی سے بھی ایک اجتماعی قبریں برآمد ہوگئیں، ان دونوں قبروں سے 8 لاشیں نکالی گئیں۔مقامی افراد کے مطابق ان آٹھوں لوگوں کو فورسز نے سینکڑوں لوگوں کے سامنے سے اغوا کیا تھا۔

عبداللہ عباس بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والی یہ کاروائیاں پاکستان کی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پاتی ہیں۔ جو کوئی صحافی یا انسانی حقوق کے کارکن اس صورت حال کے خلاف آواز اٹھانا چاہیں تو انہیں بھی ٹارگٹکیا جاتا ہے۔ معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کو بلوچستان ایشو پر بات کرنے کی وجہ سے گولیاں ماری گئی لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا، انسانی حقوق کی ایک اور کارکن سبین محمود بلوچستان ایشو پر ایک پروگرام میں شرکت کے بعد واپس جاتے ہوئے نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہو گئے۔

عبداللہ عباس بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی و علاقائی ادارے کردار ادا کریں۔