کینیڈا نے جمعرات کو کہا ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر سکھ علیحدگی پسند رہنماء کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے سفارتی تنازعے کے بعد انڈیا سے اپنے 41 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا کہ نئی دہلی نے جمعے تک کینیڈا کے 21 سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ باقی تمام عملے کے لیے سفارتی استثنیٰ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد اوٹاوا کو اپنے سفارتی عملے کو انڈیا سے نکالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
میلانیا جولی نے مزید کہا: ’ہم نے ان کی انڈیا سے محفوظ روانگی کے لیے سہولت فراہم کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے سفارت کار اور ان کے اہل خانہ اب انڈیا سے چلے گئے ہیں۔‘
انڈیا اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات میں اس وقت کشیدگی آئی تھی، جب گذشتہ ماہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے عوامی طور پر کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا براہ راست الزام انڈین حکومت پر عائد کیا تھا، جس کی نئی دہلی نے تردید کی ہے۔
الگ سکھ ریاست کی وکالت کرنے والے ہردیپ سنگھ نجر انڈین حکام کو مبینہ ’دہشت گردی اور قتل‘ کی سازش کے الزام میں مطلوب تھے۔
میلانیا جولی نے کہا کہ ’41 سفارت کاروں کے سفارتی استثنیٰ کو منسوخ کرنا نہ صرف غیر معمولی اقدام ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے بھی منافی ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ کینیڈا نے صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے جوابی کارروائی کا منصوبہ نہیں بنایا۔
انہوں نے کہا: ’کینیڈا بین الاقوامی قانون کا دفاع جاری رکھے گا، جو تمام اقوام پر لاگو ہوتا ہے تاہم اوٹاوا انڈیا کے ساتھ روابط جاری رکھے گا۔‘
میلانیا جولی نے مزید کہا کہ ’اب پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں سفارت کاروں کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
کینیڈا نے انڈیا سے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں تعاون کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن نئی دہلی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کینیڈین شہریوں کے لیے ویزا سروسز بند کرنے جیسے جوابی اقدامات کیے ہیں۔
اوٹاوا نے اس معاملے پر ایک انڈین سفارت کار کو بھی ملک بدر کر دیا تھا۔
انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے گذشتہ ماہ نیویارک میں کہا تھا کہ ان کا ملک کینیڈا کی طرف سے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کی جانچ پڑتال کے لیے تیار ہے۔
تاہم انہوں نے کہا: ’ہمارے سفارت کاروں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، ہمارے قونصل خانوں پر حملہ کیا جاتا ہے اور اکثر ایسے تبصرے کیے جاتے ہیں، جو ہماری اندرونی سیاست میں مداخلت ہے۔‘
انڈین حکومت نے اس قتل پر کینیڈا کے الزامات کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ’انڈیا مخالف سرگرمیوں میں اضافے کے پیش نظر‘ کینیڈا کے بعض علاقوں کا سفر نہ کریں۔
نئی دہلی نے عارضی طور پر کینیڈا میں ویزا درخواستوں پر کارروائی بھی روک دی تھی۔
کینیڈا میں تقریباً آٹھ لاکھ سکھ آباد ہیں، جو ملک کی آبادی کا تقریباً دو فیصد ہیں، جن میں سے کچھ گروپ خالصتان کی علیحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
سینکڑوں سکھ مظاہرین نے گذشتہ ماہ کینیڈا میں انڈین سفارتی مشن کے باہر ریلی نکالی اور انڈیا کے پرچم اور وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر جلا دیں۔
اوٹاوا اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی نے کینیڈا کے قریبی اتحادی واشنگٹن کے لیے ایک نازک صورت حال پیدا کر دی ہے، جس نے حالیہ مہینوں میں خطے میں چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو غیر معمولی طور پر فروغ دیا ہے۔