بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا چوتھا دو روزہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جیئند بلوچ کے زیرِ صدارت 14 تا 15 جون شال میں منعقد ہوا، اجلاس کی کارروائی مرکزی سیکریٹری جنرل حسیب بلوچ نے چلائی ۔
اجلاس میں سیکٹری رپورٹ، بین الاقوامی و علاقائی تناظر، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈے زیرِ بحث رہے۔
اجلاس کا آغاز دنیا بھر کے محکوم اقوام و شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ ارکان نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج دنیا ایک تاریخی تبدیلی کے دھانے پر ہے۔ جغرافیائی سیاسی تبدیلیاں، ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمٹ، ماحولیاتی تباہی، اور معاشی و سماجی بحرانات اپنی پیچیدگی اور اثرات دونوں میں تاریخی انتہاؤں پر پہنچ چکے ہیں۔ سماجی بکھراؤ اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اربوں انسانوں کے لیے کرہ ارض پر زندہ رہنا محال ہوچکا ہے، آج لاکھوں افراد جنگ، موسمیاتی تبدیلی، معاشی انہدام، نسلی، مذہبی اور سیاسی جبر کے نتیجے میں بے گھر ہو رہے ہیں، آج سرمایہ دارانہ نظام بحیثیت عالمی نظام کے انہدام کی جانب بڑھ رہی ہے، آج دنیا کثیر قطبی عالمی نظام میں داخل ہوچکی ہے جہاں طاقت کا ارتکاز مختلف ریاستوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو عالمی نظام میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں، آج امریکہ اور اس کے حواری اپنی سابقہ عالمی اجارہ داری حیثیت کھونے کے سبب دنیا بھر میں جنگی فضا قائم کرکے اپنی سیاسی اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ایسے جنگی حالات میں مظلوم اقوام و طبقات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔
مرکزی ارکان نے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی ساختی بحرانات سے دو چار ہے، عالمی منظر نامہ انارکی کی جانب سفر کر رہی ہے، سامراجی قوتوں کے مابین تضادات میں مسلسل اضافے نے انسانی المیہ کو جنم دیا ہے مختلف سامراجی قوتیں اپنی مفادات کی تسکین کے لیے مظلوم اقوام پر اپنی خونی پنجے گاڑھنے میں عمل پیرا ہو کر ان کی نسل کشی میں شدت لا رہے ہیں، اس کے برعکس عوامی تحریکوں جن میں مظلوم اقوام کی تحریکیں ہوں یا نسل پرستی کے خلاف جدوجہد، صنفی جبر سے آزادی کی پکار ہو یا پھر ماحولیاتی آلودگی پہ عوامی ردعمل کے ابھار میں اضافہ سرمایہ دارانہ نظام کے کثیرالجہتی بحرانات کی واضح عکاسی کرتی ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ آج مشرق وسطیٰ کے اندر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی، ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کا عروج، ایک بار پھر جہادی حکومتوں کے ذریعے نیا نظام نافذ کرنے کی کوششیں، کرد قومی تحریک پہ حملے، اسرائیل اور ایران کے مابین حالیہ جنگی جنون خطے میں اپنی غنڈہ گردی قائم کرکے مظلوم اقوام پر اپنی سیاسی اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں سماجی استحکام کو مجموعی طور پر بکھیر کر تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا، عام سویلینز جن کی مفادات اس جنگ کا مرکز نہیں ہیں ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور اس جنگی جارحیت میں ممکنہ بغاوتوں کو دبانے کیلئے فاشسٹ اقدامات اختیار کیئے جا رہے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست جس کی بنیاد ہی سکیورٹی سٹیٹ کے طور پر رکھی گئی ہے اور سامراجی قوتوں کیلئے کرائے کے قاتل کے طور اپنا وجود برقرار رکھی ہوئی ہے، فوج کشی کو ہی تمام مسئلوں کے حل کے طور پر دیکھتی ہے۔جبکہ خطے میں سر اٹھاتی جنگی منظرنامے عالمی قوتوں کے گریٹ گیم کا حصہ بن کر محکوم اقوام کی سرزمین کو عالمی جنگوں کا اکھاڑا بنا کر سامراجی قوتوں کی سہولتکاری کی بھر پور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ نتیجتاً اس خطہ کو مستقل طور پر جنگی ہولناکیوں میں دھکیل کر سامراجی عزائم کو عملی جامہ پہنایا جائیگا۔
مرکزی ارکان کا کہنا تھا جہاں عالمی جنگوں کے سبب تیسری دنیا شدید ترین انسانی بحرانات کا شکار ہے وہیں بلوچستان کے جغرافیائی و سیاسی اہمیت کے سبب سامراجی قوتوں کی بھی دلچسپی کا مرکز ہے، جس کے سبب بلوچ سرزمین ناگزیر طور پر عالمی جنگوں کا اکھاڑا بننے جارہی ہے۔ خطے میں بڑھتی ہوئی اسرائیل و ایران جنگ اور امریکی و چائینیز مفادات سمیت عالمی جہادی فرنچائزز کی بڑھتی سرگرمیاں اس صورتحال کی واضح طور پر عکاسی کرتی ہیں۔ بلوچستان اور بلوچ عوام پر ریاست نے قہر برپا کردینے والی جبر و استبداد کا آغاز کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ طلباء کو جبری گمشدگیوں اور ماورا آئین قتل عام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ سیاسی کارکنان کو سخت ترین بندشوں اور پابندیوں کا شکار بنا کر مفلوج کرنے کے عزائم پر عمل پیرا ہے۔ اسی تسلسل میں بلوچ یکجھتی کمیٹی کے کارکنوں و دیگر مزاحمتی سیاسی کارکنان کو قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ہے ۔ جس کا واضح مقصد بزور جبر و خوف بلوچ عوام کی قومی طاقت کا گلہ گھونٹنا ہے ۔
مرکزی قائدین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا عالمی اور خطے کے سطح پر ابھرنے والے حالیہ سیاسی پیش رفتیں بھی اس چیز کی جانب واضح طور پر اشارہ کررہی ہیں کہ بلوچستان میں جنگ اور ہیجان کے بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔ اس صورتحال کے پیش نظر بلوچ سیاسی قوتیں اس جنگی حالت کو اپنے روبرو رکھ کر ازسرنو وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دیکر جدوجہد کی جانب بڑھیں ۔ وگرنہ ہماری حکمت عملی کی آج کے حالات کے ساتھ مماثلت نہ رکھنے کے سبب ہم جلد یا بدیر بحیثیت قوم مفلوج ہونے کی جانب بڑھیں گے۔ اس نظام کی بطن میں صدیوں سے جمع ہونے والی تضادات آج اس نہج تک پہنچ چکے ہیں، جہاں تاریخ کی حرکت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے ۔ ہر نیا آنے والا دن ہمارے گمان سے پرے واقعات اور تبدیلیوں کو اپنی بطن سے جنم دے رہی ہے ۔ آج تاریخ کے اس تیز ترین حرکت کو سمجھتے ہوئے اور اس کے مطابقت میں خود کو تیزی سے تبدیل کیے بغیر کوئی بھی سیاسی قوت خاطر خواہ حاصلات حاصل کرنے سے محروم رہے گی، بلکہ ہیجان کا شکار ہوکر باعمل ہونے کی گنجائش کھو کر مفلوجیت میں تاریخ کے اس تیز ترین سفر میں ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گی ۔
انہوں نے بلوچستان بھر میں تعلیمی نظام کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان بھر میں تعلیمی ادارے تباھی کا منظر پیش کر رہی ہیں جہاں منظم کوششوں سے علم و شعور پہ قدغنوں کی انبھار کھڑی کردی گئی ہیں، تعلیمی اداروں میں مسلحہ افراد کی تعیناتی سے ادارے فوجی چھاؤنیوں بدل دی گئی ہیں جس سے طلبہ کو ہراساں کرنے اور ان کی حرکت کو محسور کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے جسے نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا گیا
اجلاس میں زونل رپورٹس پر گفتگو کرتے ہوئے مختلف زونز کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی اور جمہوری سیاسی عمل پر پابندیوں کے باوجود کیڈر سازی کے عمل میں اضافے کو ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا گیا اور تنظیم کاری کے عمل کو مزید بڑھانے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی
آئندہ کے لائحہ عمل میں تنظیمی کام کو مزید بڑھانے، کیڈر سازی کے عمل کو تیز کرنے، تنظیمی اسٹرکچرز کو مزید وسعت دینے اور اگست میں مرکزی نیشنل سکول انعقاد کرنے سمیت دیگر اہم فیصلہ جات لیے گٸے۔ تنظیم کو موصول ہوئے استعفوں کو منظور کیا گیا جس میں وحید انجم بلوچ، درویش بلوچ اور سجاد بلوچ کے استعفے منظور ہوئے۔