تربت میں تین روز سے بلوچ فدائین کی میتیں ہسپتال میں رکھی گئی ہے۔ بلوچ فدائین کے لواحقین تین روز سے میتیں وصول کرنے کیلئے ہسپتال میں موجود ہے۔
بدھ کو بلیدہ اور جھاؤ سے ان کے اہل خانہ نے سول سوسائٹی کے کارکنوں کے ہمراہ ٹیچنگ ہسپتال تربت میں گھنٹوں مییتوں کی وصولی کا انتظار کیا۔
ہسپتال میں موجود ایک شخص نے ٹی بی پی کو بتایا کہ انتظامیہ لواحقین سے ایک فارم پر اقرار نامے کی صورت میں دستخط سمیت ویڈیو ریکارڈ کروانا چاہتی ہے جبکہ لواحقین سمیت سیاسی و سماجی حلقے اس کو مسترد کرچکے ہیں۔
خیال رہے جنوری میں مچھ حملے حصہ لینے والے بلوچ فدائین کی لاشوں کی حوالگی کو کوئٹہ سول انتظامیہ نے ایک ‘فارم’ پر دستخط کیساتھ مشروط کیا تھا تاہم ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں سیاسی و سماجی حلقوں نے مذکورہ شرط کو رد کرکے لاشیں وصول کی تھی۔
سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ فارم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستانی خفیہ ادارے لواحقین کے دستخط لینے کے بعد سماجی رابطوں کی سائٹس اور میڈیا پر پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
واضح رہے 25 مارچ کی شب بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ نے ایک بڑے نوعیت کے حملے میں پاکستان فوج کے دوسرے بڑے نیول بیس، پی این ایس صدیق کو نشانہ بنایا تھا۔ مذکورہ حملہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جبکہ اس دوران شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آواز صبح تک سنائی دیتی رہی۔
ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے مجید بریگیڈ کے چار فدائین آپریشن کمانڈر ایوب عرف دودا، خلیف عرف اسلم، وجداد عرف نودان اور مراد حاصل عرف فرہاد آخری گولی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی آخری گولیوں سے شہادت قبول کرلی۔