بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور تربت نوجوانوں کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری۔
جمعہ کے روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ بالاچ اور رفیق کے لواحقین نے احتجاجی ریلی نکالی ، جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی۔
مظاہرین نے جب ریلی نکالا تو فورسز کی بڑی تعداد نے رکاوٹیں کھڑی کردی اور مظاہرین کو ہراسان کیا۔
لواحقین نے کہاکہ ہم پرامن احتجاج کررہے ہیں فورسز ہمیں ہراسان کررہا ہے۔ ہمارے پیاروں کو بحفاظت بازیاب کیا جائے۔
بعد ازاں مظاہرین نے سوربندن کراس پر مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ جس کی وجہ سے کراچی کا مکران سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے ۔
وہاں تربت میں ڈی بلوچ پوائنٹ پر پانچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے فیملی کی جانب سے دو دنوں سے احتجاج جاری ہے۔
دھرنا گاہ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اہل خانہ نے کہا کہ ہم گزشتہ دو دنوں سے یہاں ڈی بلوچ کے مقام پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے اس دھرنے میں ہمیں بچوں و بزرگ خواتین سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے جوائن کر لیا ہے۔
موسم کی خرابی اور شدید بارش کے باوجود ہم نے اپنا دھرنا جاری رکھا ہوا ہے جس کے اول اور آخری مطالبات اپنے پیاروں کی بازیابی ہے۔ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی سے تنگ آ چکے ہیں اور ذہنی بیماری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم آئین و قانون کے ماتحت رہ کر پرامن طور پر ریاست کی قانون و آئین کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ ہمارے پیارے مجرم ہیں اور وہ سزا کے مستحق ہیں تو ریاست کو انہیں اپنے عدالتوں میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عدالتوں کے ذریعے انہیں سزائیں ملیں لیکن اس طرح کسی کو لاپتہ کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
جب سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر اور جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے لاپتہ افراد کے لواحقین میں ایک اضطراب پایا جاتا ہے اور ہر کوئی اس خوف سے جی رہا ہوتا ہے کہ کہیں ان کے پیاروں کو بھی اسی طرح قتل نہ کیا جائے۔ اس خوف سے مائیں ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں جبکہ فوت ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں لاپتہ افراد کو جس طرح فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا گیا ہے ہمیں خدشہ اور خوف ہے کہ کہیں ہمارے پیاروں کو بھی اسی طرح قتل نہ کیا جائے اس سلسلے میں ہم یہ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔ سالوں کے اس ٹرامے نے آج بلوچستان کے ہر باشعور شخص کو بےخوف بنا دیا ہے۔ خوف اور ڈر کا یہ سایا ہمیشہ قائم کیلئے قائم نہیں رہ سکتا ہے اس لیے ریاست ہٹ دھرمی اور لوگوں کو زندانوں میں رکھنے کے بجائے انہیں بازیاب کرائیں یا اپنے قانون کے سامنے پیش کریں۔ اس طرح کسی بھی شخص کو جبری طور پر اغوا کرنا اور انہیں سالا سال لاپتہ رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کے خلاف آج دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے ذریعے صرف نفرت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے کا کوئی بلا نہیں ہو سکتا، ریاست کے ایسے اقدامات سے ریاست اپنے لیے مزید نفرتیں سمیٹ رہی ہوتی ہے۔ ہمارے علاقےسے اس وقت چھ افراد جن میں عابد وشدل اور جہانزیب فضل کو 21 مارچ 2023 وعدیل اقبال کو 8 مارچ، شعیب لیاقت اور حماد کو 9 اپریل جبکہ ظریف کو 9 اگست 2023 میں جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر لاپتہ کیا گیا۔ ہم نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہروں سے لیکر تمام جمہوری و آئینی اقدامات اٹھائے لیکن بدقسمتی سے ہمیں نہیں سنا گیا ہے جس کے بعد ہم نے مجبور ہوکر ڈی بلوچ کو بند کر دیا ہے۔ اور اگر ہمارے مطالبات پر سنجیدگی نہیں دیکھائی گئی تو کیچ بھر سے شاٹ روٹس کو بھی بند کیا جائے گا۔ ہم ریاست سے آئینی و قانونی حقوق مانگ رہے ہیں جو ہمارا حق ہے۔ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
دریں اثنا حق دو تحریک بلوچستان (حق پرست) گروپ کے محمد یعقوب جوسکی اور لاپتہ واحد بخش کے فیملی نے کہا ہے کہ لاپتہ واحد بخش ولد محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف سامی سی پیک روڈ دھرنے کو 4 دن پورے ہو چکے مگر ضلعی انتظامیہ خواب غفلت میں مدہوش ہے۔ آج شام تک واحد بخش کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم مجبور ہیں کہ اپنا آئندہ ردِ عمل مزید سخت کریں۔
واحد بخش ولد محمد بلوچ کی عدم بازیابی کی صورت میں کل 3 فروری کو شہرک کراس اور تجابان سی پیک روڈ کو انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے احتجاجاً بلاک کیا جائے گا۔ اور ہمارا مرکزی پر امن دھرنا سامی بلوچی بازار میں جاری رہے گا۔
ہم دھرنا منتظمین کیساک، کہکن، شہرک، شاپک، عمری کہن، سامی، کلگ، ہیرونک، کرکی، سنگ آباد اور تجابان کے بہادر، نڈر اور غیرت مند عوام الناس سے التجا کرتے ہیں کہ لاپتہ واحد بخش کی بازیابی کے لئے ہمارے پرُامن دھرنوں کا بھرپور ساتھ دیں۔
سامی دھرنے کے دوسرے روز انتظامیہ کا ایک وفد تحصیلدار شیر جان کی سربراہی میں دھرنا منتظمین سے مزاکرات میں اقرار کر چکا تھا کہ واحد بخش بے قصور ہے۔ اور دو دن کے اندر واحد بخش کو بازیاب کیا جائے گا جو کہ آج 2 فروری شام 4 بجے تک کا مدت ہے۔
واحد بخش 65/70 سالا ایک انتہائی معصوم اور کماش ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچ قوم واحد بخش کی بازیابی کے لئے ایک اہم کردار ادا کرے گا۔