تربت: جبری گمشدگیوں کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال

223

ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں جبری گمشدگیوں کے خلاف مکمل شٹر ڈاﺅن ہڑتال، تمام کاروباری مراکز بند۔

لواحقین اور بی ایس او کی جانب سے شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی کال پر تربت شہر میں تمام کاروباری مراکز آج مکمل بند ہیں۔ بی ایس او کی جانب سے بلوچ لاپتا افراد کے لواحقین کی جانب سے دیے گئے دھرنے کی حمایت میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین ڈی بلوچ پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

ڈی بلوچ پوائنٹ پر پانچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لواحقین کی جانب سے پانچ دنوں سے احتجاج جاری ہے۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ موسم کی خرابی اور شدید بارش کے باوجود ہم نے اپنا دھرنا جاری رکھا ہوا ہے جس کے اول اور آخری مطالبات اپنے پیاروں کی بازیابی ہے۔ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی سے تنگ آ چکے ہیں اور ذہنی بیماری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم آئین و قانون کے ماتحت رہ کر پرامن طور پر ریاست کی قانون و آئین کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ ہمارے پیارے مجرم ہیں اور وہ سزا کے مستحق ہیں تو ریاست کو انہیں اپنے عدالتوں میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عدالتوں کے ذریعے انہیں سزائیں ملیں لیکن اس طرح کسی کو لاپتہ کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انکا کہنا ہے کہ جب سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر اور جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے لاپتہ افراد کے لواحقین میں ایک اضطراب پایا جاتا ہے اور ہر کوئی اس خوف سے جی رہا ہوتا ہے کہ کہیں ان کے پیاروں کو بھی اسی طرح قتل نہ کیا جائے۔ اس خوف سے مائیں ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں جبکہ فوت ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں لاپتہ افراد کو جس طرح فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا گیا ہے ہمیں خدشہ اور خوف ہے کہ کہیں ہمارے پیاروں کو بھی اسی طرح قتل نہ کیا جائے اس سلسلے میں ہم یہ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے مسئلے کو انسانی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔ سالوں کے اس ٹرامے نے آج بلوچستان کے ہر باشعور شخص کو بےخوف بنا دیا ہے۔ خوف اور ڈر کا یہ سایا ہمیشہ قائم کیلئے قائم نہیں رہ سکتا ہے اس لیے ریاست ہٹ دھرمی اور لوگوں کو زندانوں میں رکھنے کے بجائے انہیں بازیاب کرائیں یا اپنے قانون کے سامنے پیش کریں۔ اس طرح کسی بھی شخص کو جبری طور پر اغوا کرنا اور انہیں سالا سال لاپتہ رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کے خلاف آج دنیا بھر میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے ذریعے صرف نفرت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے کا کوئی بلا نہیں ہو سکتا، ریاست کے ایسے اقدامات سے ریاست اپنے لیے مزید نفرتیں سمیٹ رہی ہوتی ہے۔ ہمارے علاقےسے اس وقت چھ افراد جن میں عابد وشدل اور جہانزیب فضل کو 21 مارچ 2023 وعدیل اقبال کو 8 مارچ، شعیب لیاقت اور حماد کو 9 اپریل جبکہ ظریف کو 9 اگست 2023 میں جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر لاپتہ کیا گیا۔ ہم نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہروں سے لیکر تمام جمہوری و آئینی اقدامات اٹھائے لیکن بدقسمتی سے ہمیں نہیں سنا گیا ہے جس کے بعد ہم نے مجبور ہوکر ڈی بلوچ کو بند کر دیا ہے۔ اور اگر ہمارے مطالبات پر سنجیدگی نہیں دیکھائی گئی تو کیچ بھر سے شاٹ روٹس کو بھی بند کیا جائے گا۔ ہم ریاست سے آئینی و قانونی حقوق مانگ رہے ہیں جو ہمارا حق ہے۔ ہم اپنے پیاروں کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔