پروفیسر عبید ابدال سے مکالمہ ۔ اسرار بلوچ 

188

پروفیسر عبید ابدال سے مکالمہ
تحریر: اسرار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

نیلسن منڈیلا ,ایک جنوبی افریقہ کے مخالف نسل پرستی اور ایک سیاسی لیڈر, کے منفرد الفاظ آج بھی تاریخ کے دریچوں میں یاد کیا جاتا ہے جب وہ کہا کرتھے تھے ” ایک اچھی لائبریری کسی بھی کمیونٹی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں علم حاصل کیا جا سکتا ہے اور شیئر کیا جا سکتا ہے، اور جہاں کتابوں اور پڑھنے کی محبت کو بھڑکایا اور پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔”

یقینی طور پرایک منظم کتب خانہ تعلیمی اداروں میں علم اور آگہی کے لیےناگزیر ہے۔ ایک فعال کتںب خانہ تعلیمی اداروں میں تحقیق و تخلیق کے لیے اٹل ہے۔ کتب خانہ یعنی لاہبریری علمی اور غیر علمی سر گرمیوں کے فروغ دینے کے لیے ریڈھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے ۔سب سے بڈھ کر,یہ کتب خانہ سماج کے مختلف طبقات کو ایک ساتھ ملانے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم فرہم کرتا ہے۔

مذید برآں انسانی تہذیب کے ارتقا اور ترقی ہونےکا مختلف عہدوں کی سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں دیگر عوامل کے ساتھ لائبریری کا ایک مکمل اور جامعہ کردار رہا ہے۔ حتاکہ اکیس ویں صدی میں بھی ایجادات کی دنیا میں ڈیجیٹل لائبریری کا انعقاد اور اور افزائش تعلیم کو پروموٹ کرنے کے لیے برسر پیکار رہیں ۔ ایسی پس منظر میں سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل لاہبریری کا انعقاد کا رجحان پیدا ہوا۔

اس سلسلے کو مدنظر رکھ کر ملک بھر کے جامعات میں زیر تعلیم بسیمہ کے پر فکر اور روشن خیال طلبہ نے بسیمہ میں لاہبریری قائم کرنے کے کیلئے ایک تحریک شروع کیا۔اس تحریک کا بنیادی مقصد حکام بالا کو بسیمہ میں ایک پبلک لاہبریری قائم کرنے کے طرف ماہل کرنا تھا,جو کہ اس میں کامیاب ہوئے۔

تعریف تو بنتا ہے بسیمہ سمیت رخشاں بھر کے اسٹوڈنٹس کے جن کی شب و روز کی محنت کے بعد بسیمہ پبلک لائبریری کا انعقاد کیا گیا. یقینا , کتاب کلچر بلخصوص مطالعہ کی رواج کو وسیع دینے کے لیے اس پبلک لاہبریری کا قیام عمل میں لانا ایک اعزاز کی بات ہیں۔اس پس منظر میں ,طلبہ کی ایک کثیر تعدد نے کتاب ڈونیشن کیا ۔لیکن ,محض کتابیں کے زخیرہ اندوزی اور الماریاں بھرنے سے لاہبریری کامیاب نہیں ہوتے ہیں ۔اور صرف فوٹوسیشن سے بھی لاہبریری کا فعال نہیں بلکہ یہ اسٹیڈی سرکلز,نصابی اور غیر نصابی لیکچر ,علاقائی اور عالمی حالات کے اوپر تجزیہ اور تبصرہ سے فحال ہوتے ہیں ۔سب سے بڑھ کر,ایک مہذب ریڈار سرکل سے ایک لاہبریری کامل ہو سکتے ہیں۔ افسوس یہ سارے عومل بسیمہ پبلک لاہبریری میں روز اول سے سرے سے ہی غیر فعال ہیں۔

پبلک لاہبریری میں نصابی و غیر نصابی مطالعہ کے روجحان کو عملی اور ظاہرہی طور پیش کرنے کے اوپر بہت سے سولات اٹھ رہیں ہیں۔ یہ ہر زی شعور انسان جانتا ہے کہ کوئ بھی کتب خانہ معض کتاب زخیرہ کرنے کا نام نہیں ہے ۔ کتب خانہ کوآ راہش و افضاہش صرف سوشل میڈیا تک محدود رکھنے کا نام نہیں ۔ کسی بھی باشعور معاشرے میں اسی درسگاہ سماجی ,قومی اور عالمی حالات حاضرہ پر بعث و مباحثہ کرنے کے لیے سرکل و مجالس کے لیے خاص وقت نکالا جاتا ہیں۔ان سب سوالوں کے جواب لینے کے لیے ہمیں پبلک لاہبریری کا ایڈیشنل انچارج پروفیسر عبید آبدال سے وقت لینے پڑھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آبدال صاحب بزات خود لیکچرار ہونے کا جدمت سر انجام دہے رہے ہیں ۔

س :جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایم فل بالکل کمپلیٹ کر لیا ہے اور آپ کا پی ایچ ڈی کا ریسرچ بھی چل رہا ہے؟
ج:اصل میں میرا پی ایچ ڈی کا کورس ورک کمپلیٹ ہے اور جہاں تک ریسرچ کی بات ہے وہ میری ذاتی مصروفیت کی وجہ سے نامکمل ہے اور میرا پی ایچ ڈی کا تھیسز براہوہی اور بلوچی زبان کے افسانوں میں موازنہ ہے.

س:آپ کب سے لاہبریری میں خدمت سر انجام دیں رہیں ہو اور کیوں ؟ کیونکہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر کا مقام اور کام یہاں سے بڑھ کر کچھ اور ہے؟
ج:لاہبریری بالکل غیر فعال تھا اور ایک لیویز اہلکار کا سر نگران میں تھا۔اسی کی غیر فعالی کو انتظامیہ سے زیر بحث لایا۔ پرانتظامیہ نے کتب خانہ کو عارضی طور پر میرے سپرد کر دیا اور گزشتہ ایک سال سے اس کو بالواسطہ یابلاواسطہ لیڈ کر رہا ہوں۔مجھے دینے کامقصد یہ تھا کہ ایک استاد کے ناطے یہاں طلبہ کے موثر انداز میں مدد کرسکوں۔

س: کیا آپ اس سال کے اندر اپنی توقعات کے اوپر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے؟
ظاہر سی بات ہے لائبریری ہمارا ایک قومی اثاثہ ہے اور اس کی حفاظت ان سب کی اولین فرائض ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ لگا کہ ان قومی فرائض کو ہم اچھی طرح سے نہیں سنبھال رہے ہیں, کہ ایسا نہ ہو یہ ہماری ہاتھ سے بھی نکل جائے۔

جان تک توقعات کی بات ہے اس لائبریری سے پہلے مجھے بخوبی علم تھا اور میں اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہوں کہ کہ بسیمہ سمیت رجشان بھر میں مطالعہ کا کلچر خاص نہیں ہے اسی طریقہ اور حقیقت کو میں نے پبلک لائبریری بسیمہ کا چارج لینے کے بعد دوبارہ مشاہدہ کر لیا.

س:اسی ایک سال میں کتنا لیکچر دیا اور کتاب ڈونیشن مہم کی طرف سے وصول کیا؟
انتہائی افسوس کی بات ہے، کتاب اور لیکچر بعد کی بات ہیں ۔لوگ مطالعہ کے لیے بھی بالکل نہیں آتے ۔ہاں سنگت اکیڈمی آف ساہنسز کی طرف کتابوں کا ایک مجموعہ وصول کیا اور لیکچر ایک بھی نہیں دے سکا۔

س :بے شمار وسائل ہونے کے باوجود لائبریری کیوں غیر فعال ہے اور اس کی سب سے بڑی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
میرے خیال سے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں ادبی اور سماجی مطالعے کا رجحان بالکل نہ ہونے کے برابر ہے. ہم بحیثیت قوم مطالعہ صرف اپنی معاشی اور سماجی سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں , لیکن علمی مطالعہ کو خاص فوقیت نہیں دی جاتی. اس کی سب سے بڑی حل یہ ہے کہ ہمارے دعوے اور عمل میں کوئی متضاد نہیں ہونا چاہیے ہم اس وقت تک ایک باشعور سماج نہیں کہہ سکتے جب تک ہم خود ذاتی طور پر عمل نہ کریں- یعنی جو پڑھے اس کے اوپر عمل بھی کریں. نصابی تعلیم کے ساتھ غیر نصابی مطالعہ بھی ضروری ہے.

لائبریری کے علاوہ آپ نے اور کون سے اداروں میں خدمت سر انجام دیا ہے?
ج :جی بالکل میرا اوریجنل ڈیوٹی بحیثیت ایک لیکچرار انٹر کالج بسیمہ میں ہے۔ اس کے علاوہ میں رضاکارانہ طور پر کچھ اداروں میں کچھ وقت کے لیے سر انجام دیا۔ کیونکہ کالج میں اسٹوڈنٹ نہیں ہیں اگر کچھ ہے تو وہ سائنس سبجیکٹس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ میں حال ہی میں ہوپ اکیڈمی ہا ہی اسکول اور گورنمنٹ ہا ئی اسکول بسیمہ میں رضاکارانہ طور پھر تربیتی لیکچر دیا ہے۔ مثال کے طور کمپیوٹر اور دیگر ساہنس کے مضامین ۔

س:اکثر ہم دیکھتے ہیں بسیمہ میں بہت سے تعلیمی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، اس میں آپ کے شرکت پر سوالیہ نشان ہے؟
ج:ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ پروگرام کس نوعیت کے ہیں اور ہم کس اینگل سے دیکھتے ہیں ۔ یہ اصل اسپانسرشپ اور پیرول پر منعقد کئے جاتے ہیں ۔نجی ادارے اکثر ان لوگوں کو مدعو کرتے ہیں ،جو مالی طور پر مستحکم ہو ۔ ظاہر ہے مجھ سمیت کسی اسکالر کا شرکت ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔ایک استاد کے تقریر یا خطاب تعلیم پر مبنی ہوگا ۔
ہمارے ہاں لوگ علمی ادبی طور پر اتنا منظم نہیں ہیں کہ وہ کوئی ادبی پروگرام منعقد کرسکیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ دیگر ناہل افراداس کو سرانجام دیتے ہیں ۔یقینا یہ عظیم المیہ ہے۔

س:بسیمہ ادبی اور لٹریری میدان میں بیک ورڈ کیوں ہے؟
ظاہر ہے ہر ایک شعبے کا ایک حسن اور ایک کراکس ہوتا ہے ۔اس کو سمجھنا ہے بغیر اور خود عمل کیے بغیر نتیجہ مایوس کن اور نماہشی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عمل وہ لوگ سر انجام دے رہے ہیں، جن کے عمل اور دعوے سے ادب کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔صرف پروجیکٹ اور نماہشی ہوتے ہیں، مطالعہ نہیں کرتے ہیں ۔

س :رخشان ادبی سوسائٹی کب بنا اور کیوں ناکام رہا؟
یہ 1195 میں کچھ دوستوں کے باہمی مشورے سے بنا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رخشان ادبی سوسائٹی ادبی کاموں میں نمایاں رہا۔لیکن اکثر دوستوں کے مالی مشکلات اور بعد میں روزگار کی تلاش میں تنظیم زیادہ دیر متحرک نہیں رہا۔ ادب ہمارے ہاں ہمارے بنیادی ترجیح نہیں رہا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔