اسلام آباد نے ہمیں دہشت گرد کہہ کر نکالا، تحریک کے پانچویں دور کا آغاز 27 تاریخ کے جلسے سے ہوگا – ماہ رنگ بلوچ

468

بلوچ لانگ مارچ کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کوئٹہ استقبالی شرکا کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اپنی تحریک کے پانچویں مرحلے میں ہم اسلام آباد میں پیش آنے والی مشکلات، مظالم، ظلم، لاٹھی چارج اور مصائب کی تمام داستانیں لے کر آرہے ہیں۔ یاد رکھیں، ہماری ماؤں کی بے عزتی کی گئی، ہم پر دہشت گرد کا لیبل لگایا گیا۔

انہوں نے کہاکہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ اسلام آباد میں ریاست نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آپ لوگ یہاں پر موجود ہیں اسی طرح 27 جنوری کو بھی اپنی آمد کو یقینی بنائیں۔ جب ہم تربت سے نکلے تو ہم خواتین اور بچے تھے، ہم گھر گھر گئے اور لوگوں کو کہا کہ اتحاد و اتفاق سے ایک ہوجاؤ، بلوچ نسل کشی کیخلاف متحد ہوجاؤ۔ جن سردار ، میر اور معتبرین نے آپ لوگوں کو تقسیم کیا ہے میں کہتی ہوں کہ اس کیخلاف ایک ہوجاؤ۔ یہ وہی ریاست ہے جس نے بنگلا دیش میں خواتین کی عصمت دری کی، اسے فراموش نہ کریں۔ انہوں نے تمہاری بہنوں کے دوپٹے کھینچے، ہمارے خلاف نازیبا زبان استعمال کی۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے ہمیں کہا کہ بلوچیوں تم لوگ جاؤ اپنے وطن میں۔ بلوچوں اب آپ انہیں اپنے وطن سے نکال دو، تمام لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ وہ ہماری تحریک کا ساتھ دیں۔ یہ بہت ظالم ہیں، جب ہم اسلام آباد میں تھے تو ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا، ہم سردی اور مشکل حالات میں دھرنے پر بیٹھے تھے اور یہ ہمیں دہشت گرد کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ انہوں نے صرف ہمیں دہشت گرد کہہ کر نہیں پکارا، تمام بلوچوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ آؤ اب ہم بتاتے ہیں کہ ریاست کے دہشت گرد کون ہیں، دہشت گرد تمہارے اہلکار ہیں، میں تم لوگوں کی بہن ہوں اور تم لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے گھروں سے نکلو، تم لوگ کب تک لاشیں اٹھاؤ گے، اور کب تک ہم انتظار کریں کہ یہ ہمارے لاپتا لوگوں کی لاشیں ہمیں دیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ غور سے دیکھو تمہارے درمیان تمہاری مائیں، بہنیں بیٹھی ہیں جن کے ہاتھوں میں تصویریں ہیں جو ان کے اپنے بچوں کی نہیں ہیں، بلکہ بلوچوں کی ہیں، بلوچوں کے بچوں کی ہیں، جو ٹارچر سیلوں میں پابند سلال ہیں اور ریاست نے انہیں قید کیا ہوا ہے۔ آؤ ہم ان کی اور شہداء کی وارثی کریں۔ ہم ایک میڑھ کی صورت میں تربت سے اسلام آباد گئے۔ ہمیں پہلے دن سے ہی علم تھا کہ اسلام آباد ہمارے ساتھ انصاف نہیں کریگا۔ اسلام آباد نے ہمارے بزرگ نواب نوروز خان کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکا۔ اسلام آباد نے ہمارے 80 سالہ بزرگ نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کردیا۔ یہ وہی اسلام آباد ہے جس نے آپ کی خواتین کے سروں سے چادریں کھینچیں، اسے اپنے دل سے کبھی نہیں نکالنا۔ بلوچوں اگر یہ باتیں تم لوگوں نے یاد نہیں رکھیں تو مائیں اور بہنیں تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمارا انصاف اب تم لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، اب تم لوگ انصاف کرو گے یا نہیں۔ اگر آپ لوگوں نے انصاف کرنا ہے تو بلوچ جہد کا ساتھ دو۔ ہماری جدوجہد بقا کی جنگ ہے، سرکاری سرداروں نے کہا کہ ہم ماہ رنگ سے بات کرکے یہ دھرنا ختم کرائیں گے، آپ لوگوں کو شرم آنا چاہیے کہ آپ لوگ مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں، کوئی مذاکرات نہیں ہوئے، جو لوگ بلوچ خون کے نام پر سیاست کررہے ہیں ، ہمیں انہیں مسترد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو ہماری تحریک کے ذریعے ماؤں، بہنوں کے نام پر سیاست کررہے ہیں وہ اپنی سیاست اپنے پاس رکھیں، اب بلوچ قوم جاگ گئی ہے جو اپنی ماﺅں ، بہنوں، شہیدوں اور اپنی سر زمین کے وارث ہیں۔