بلوچستان معاشی طور پر مکمل مفلوج ، پاکستانی فوج ، مافیا اور ایک غیرمستحکم کاروبار کے رحم و کرم پر ہے۔ بی این ایم

78

بلوچ نیشنل موومنٹ کے محکمہ سماجی بہبود نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاہےکہ اس خطے میں انگریز کی آمد سے پہلے متحدہ بلوچستان کے لوگ آزادانہ آمدورفت اورتجارت کے لیے متحدہ بلوچستان کے تمام حصوں میں آزادانہ نقل وحرکت کرتے تھے اوراس وقت کےمعاشی واقصادی امکانات کے مطابق نسبتاخوشحال زندگی بسرکرتے تھے ، اس زمانے میں مشرقی ، مغربی وشمالی بلوچستان کی اصطلاح ناپید تھی۔یہ اصطلاح انگریز کے بلوچستان پرقبضے کے بعد بلوچ سرزمین کو تقسیم کے مراحل سے گزارانے کے نتیجے میں سامنے آئی اور بلوچستان مغربی ، مشرقی اورشمالی حصوں میں بٹ گیا اور بلوچ مرکزیت ختم ہوگئی۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ مشرقی بلوچستان کو مزیدتقسیم کرکے سندھ، پنجاب اور پختونخواہ کو وسیع علاقے تحفے میں پیش کیے ،متحدہ بلوچستان کاشیرازہ بکھر گیا اور بلوچ قوم ایک ہوتے ہوئے بھی متعددحصوں اورمختلف مملکتی بندوبست میں بٹ کرمنشترہوا ،اس کانتیجہ یہ نکلا کہ آج بلوچ جہاں بھی آباد ہے نوآبادیاتی مظالم کا شکار ہے،اس جائزہ رپورٹ میں ہم پاکستان کے مقبوضہ بلوچستان میں عوام کی حالت زارپر نگاہ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔

انہوں نے کہاکہ نو آبادیاتی نظام میں نا صرف بلوچوں کانسلی،قومی، سیاسی، ثقافتی ، تعلیمی نسل کشی جاری ہے بلکہ معاشی قتل عام بھی عروج پر ہے اس کے نتیجے میں بلوچ اپنے تاریخ کے بدترین دورسے گزررہے ہیں اور آج ٹیکنالوجی کے جدیددور میں بلوچستان کی عوام نان شبینہ کے محتاج ہے۔

بلوچستان کی غلامانہ اورکنٹرولڈ معیشت میں بلوچ کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کتنی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اس کا اندازه لگاناکافی مشکل ہے لیکن بلوچستان میں پاکستانی نو آبادیاتی نظام اور اس نوآبادیاتی نظام کے سائے تلے جبر کا سامنا کرنے والے بلوچ عوام کی معاشی وسماجی زندگی سے ان مشکلات کا پتا چلتا ہے ۔ پورے بلوچستان میں صنعت کا نام و نشان نہیں ، سب سے بڑا صنعتی علاقہ ضلع لسبیلہ کا شہر ’ھب ‘ ہے جہاں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں قائم ہیں لیکن ان میں بلوچستان کے مقامی لوگوں کو روزگاردینے کی بجائے اعلی عہدوں سے لے کرمزدور تک کراچی اور دیگر شہروں سے لائے جاتے ہیں اور بلوچوں کو مختلف حیلے بہانوں سے نوکری کے اہل نہیں سمجھا جاتا۔

رپورٹ میں لکھا ہےکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے محکمہ سماجی بہبود نے بلوچ قوم کی معاشی صورتحال کو سمجھنے کے لیے زیرنظر رپورٹ مرتب کی ہے۔ کیونکہ ہر قوم کی خوشحالی ، امن اور ترقی کا راز اس کے معاشی استحکام میں پوشیدہ ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعے اس خطے سمیت دنیا بھر میں بسنے والے انسانیت دوست، امن پسند اور فلاحی ریاست کی اصطلاح استعمال کرنے والے لوگوں کو بلوچستان کے عوام کی اجیرن زندگی کے بارے میں آگاہی پہنچانا مقصود ہے تاکہ پاکستان کے قبضے کی وجہ سے بلوچ عوام کو جن مصیبتوں کا سامنا ہے اس کو سمجھیں اور بلوچ قوم کے لیے آواز اٹھا کر اپنا انسان دوست کردار نبھائیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان ایک وسیع جغرافیے پر مشتمل ہے جس کی سرحدیں سندھ، پنجاب، کے علاوه ایران و افغانستان سے ملتی ہیں۔ زیر نظر رپورٹ صرف مغربی سرحد پر تجارتی راہداریوں کے بارے میں ہے۔

انہوں نے مختلف علاقوں کے تجارتی اہمیت کرتے ہوئے کہاکہ تفتان یہ ضلع چاغی سے متصل ہےجو مغربی بلوچستان کے میر جاوہ سے ملتا ہے، دونوں اطراف کے عوام کی روزی روٹی کا انحصار سرحدی تجارت پر ہے۔

ماشکیل ضلع واشک اور مغربی بلوچستان کے علاقے سراوان کو آپس میں ملاتا ہے، یہ ایک ریگستانی علاقہ ہے۔

ابدوی یہ بارڈر ضلع کیچ اور مغربی بلوچستان میں ھنگ کو آپس میں جوڑتا ہے ۔

پیشن- مند بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقوں کو براستہ مند مغربی بلوچستان میں پیشن اور سرباز سے جوڑتا ہے۔

ریمدان (دو بیست و پنجاه) ضلع گوادر کو زمینی راستے سے چابھار تک ملاتا ہے۔

کوھک ضلع پنجگورکو مغربی بلوچستان کے سراوان سے جوڑتا ہے ، تسلیم شدہ تجارتی راہداری ہے۔ پروم پنجگور اور سراوان کے دیہی علاقوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔

پسابندن ایک قدرتی بندرگاہ ہے، جس کے مشرق میں جیمڑی واقع ہے۔ یہاں ایران ’بازارچہ ‘ کے نام سے ایک قانونی سرحدی تجارتی سینٹر قائم کرنا چاہتا ہےتاکہ یہاں سے قانونی طور پر دونوں بلوچستان کے درمیان کم لاگت اور کم وقت میں سرحدی تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ گذشتہ کئی سالوں سے پیش رفت نہیں کر رہاہے ۔

گوتر بھی تجارت کے حوالے سے ایک تاریخی قدرتی بندرگاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ماضی میں یہاں بڑے تجارتی جہاز لنگرانداز ہوتے تھے۔یہاں ایرانی کسٹم کا ایک آفس بھی ہوا کرتا تھا اور بڑے چہل پہل رہتی تھی مگر یہ قدرتی بندرگاہ اب صرف ماہی گیری کی ایک چھوٹے اور غیرآباد بندرگاہ رہ گئی ہے۔ یہ بندرگاہ مشرق کی طرف ایران کے سیکورٹی مفادات کے لیے بھی انتہائی

انہوں نے کہاکہ اہم ہے۔ یہ قدرتی بندرگاہ پسابندن کے قریب ہی ہے پسابندن میں ماہی گیری کی بندرگاہ کی وجہ سے وہاں زیادہ چہل پہل رہتی ہے اور ماضی میں ماہی گیری کی صنعت اپنے عروج پر تھی ، اب بھی وہاں درجنوں ماہی گیری کی بڑی لانچیں اور سینکڑوں چھوٹی کشتیاں لنگرانداز ہیں۔

کلانی / کنٹانی ھور سمندری راستے سے ایرانی تیل اور دیگر اجناس کی تجارت کا حب مغربی بلوچستان میں کلانی نامی ایک گاؤں ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اسپیڈ بوٹس ایرانی تیل مشرقی بلوچستان کو منتقل کرتے ہیں وہاں یہ کنٹانی ھور میں تیل مختلف ڈپوز میں تیل اتارتے ہیں۔ کلانی اور کنٹانی دونوں ایرانی تیل کی خرید و فروخت کے بڑے مراکز ہیں۔

مندرجہ بالا چند اہم راہداریاں ہیں جن کے ذریعے ایرانی اجناس بالخصوص ڈیزل اور پٹرول مشرقی بلوچستان میں منتقل کی جاتی ہے۔

ذیل میں اس تجارت سے جڑے افراد کو درپیش مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔
بھتہ خوری سرحدی کاروبار سے منسسلک افراد کے لیے ایک بڑا عتاب ریاست اور اس کے منظم جھتوں کی طرف سے بھتہ خوری ہے جس سے اس کاروبار کے منافع کا خطیر حصہ لوگوں سے بلاوجہ چھینا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ٹوکن سسٹم پاکستانی فوج نے سیکورٹی صورتحال کو بہانہ بناتے ہوئے گاڑیوں کی آمد و رفت کو رجسٹریشن اور ٹوکن سے مشروط کیا ہے۔ یہ بھی دراصل بھتہ خوری کی ہی شکل ہے۔ حالانکہ لوگوں کو انتظامیہ کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کے مد میں کوئی چارجز نہیں لیے جائیں گے مگر ایک ٹوکن کے بدلے 25 سے 40 ہزار تک بٹورے جاتے ہیں۔ یہ ٹوکن بلوچ قوم کے خلاف کام کرنے کے عوض اپنے آلہ کاروں میں بطور رشوت بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ٹوکن دیے گئے جو اس کاروبار سے منسلک نہیں لیکن وہ ٹوکن دوسروں کو دے کر بیٹھے بٹھائے ایک جبری لگان وصول کر رہے ہیں جس کا ایک حصہ وہ پاکستانی فوج کے افسران کو نقدی یا ان کے لیے سہولت کار کی صورت کام کرکے واپس کرتے ہیں۔

مزید کہاکہ ناہموار راستے بھی گاڑی کی ذریعے سرحدی تجارت کرنے والے افراد کے لیے ایک بڑی مصیبت ہیں جہاں ناموافق موسم کی وجہ سے اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ جن میں لوگوں کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستانی اور ایرانی فورسز کی سرحدی تجارت کرنے والی گاڑیوں پر فائرنگ بھی معمول کے واقعات ہیں ، ان میں بھی ہر مہینے درجنوں افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی فوج اور ریاست کی طرف سے اس کاروبار پر بظاہر کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ اس کاروبار کا سب سے زیادہ فائدہ ریاستی فورسز اور ان کے آلہ کار اٹھا رہے ہیں لیکن اس کاروبار کو چھوٹے چھوٹے وقفوں کے درمیان بغیر کسی پیشگی اطلاع کے بند کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس کاروبار سے منسلک افراد کے پاس کوئی سرمایہ اور بچت نہیں ہوتی اس لیے ہفتے دو ہفتے کی بندش بھی ان پر سخت گزرتی ہے اور فاقوں کی نوبت آتی ہے۔ آن کے آن لاکھوں لوگ ایک دن میں بے روزگار ہوجاتے ہیں جن کے لیے کوئی متبادل روزگار نہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی یہ رپورٹ ، دنیا کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلاتی ہے کہ بلوچستان معاشی طور پر مکمل مفلوج ، پاکستانی فوج ، مافیا اور ایک غیرمستحکم کاروبار کے رحم و کرم پر ہے جسے معطل کرکے پاکستانی فوج بلوچ قوم کو ایک ہی دن میں معاشی طور پر تباہ کرکے خودساختہ قحط کی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔