بابا مری کا تناور درخت”ماہ رنگ” ۔ کامریڈ عزیز بلوچ

180

بابا مری کا تناور درخت”ماہ رنگ”
 
تحریر: کامریڈ عزیز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

جنگ نہ صرف اپنے رہنما خود چنتی ہے بلکہ جنگ نسلوں کی تربیت کرکے انہیں سیسہ پلائی دیوار کی مانند بنادیتی ہے۔ ریاست نے اکیسویں صدی کے پہلے دہائی میں ابھرنے والی عوامی سیاست کے سیلاب کو روکنے کے لیے انقلابی نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ اور شہید کیا جس کے مقاصد میں بلوچ عوام اور تحریک کے درمیان ایک خلاء پیدا کرنے کی کوشش بھی شامل ہے۔ ریاست کے اس کوشش سے وقتی طور پر عوامی سیاست کرنے میں مشکلات پیدا ہوئے، سیاسی ماحول میں خوف نے جگہ بنالی، سیاسی کارکنان کو اپنا موقف عوام تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا تھا، لوگ بات کرنے سے کتراتے تھے، ان مشکلات کے پیدا ہونے کے بنیادی اسباب میں ایک نقطہ نڈر اور نظریاتی قیادت کا فقدان تھا جو عوام اور سیاسی کارکنان کے درمیان رہے کر اس خوف کو ختم کریں اور ان کے لیے ہمت و حوصلے کا باعث بنے اور بغیر کسی ڈر وخوف کے واضح نقطہ نظر کے ساتھ اپنا موقف رکھے۔ تو ایسے میں نوجوان سیاسی کارکنان نے یہ ذمہ داریاں اپنے کندھوں میں لیے اور ان نوجوان سیاسی کارکنان میں سے عوامی سیاست کو کامریڈ ماہ رنگ جیسا رہنما میسر آیا۔

ماہ رنگ جیسے سیاسی کارکن کی انتہائی جُرت اور بہادری کے ساتھ سامنے آنا اور بہادری کے ساتھ عوامی تحریک کا قیادت کرنا جہاں بلوچ تحریک کے لیے نیگ شگون ہے وہی  ماہ رنگ کے لیے چیلنج بھی ہے کہ وہ کس طرح ماضی بعید و قریب میں بلوچ عوامی سیاست میں ہونے والے  غلطیوں سے خود کو محفوظ رکھے گے، علم و دانش کا اپنے سیاسی سفر میں کس طرح استعمال کریں گے، آپسی رسہ کشیوں سے اپنے آپ کو کس طرح محفوظ رکھے گے، فیصلہ سازی میں اپنے صلاحیتوں کا کیسے استعمال کریں گے اور سب سے اہم چیز وہ لبرل اور متعدل نقطہ نظر کے بجائے کیسے انقلابی نقطہ نظر کو برقرار رکھ پائے گے، ان سب کا فیصلہ آنے والے وقتوں میں اس نوجوان رہنما کے  سیاسی حکمت و دانش پر منحصر ہوگا۔

جب ۹۰کے دہائی میں بلوچ قومی تحریک کے بانی نواب خیر بخش مری نے حق توار اسٹیڈی سرکل کے نام سے اپنے سیاسی اسکول کا آغاز کیا تو اس سے  نہ صرف بلوچ تحریک میں قدآور سیاسی اشخاص نے جنم لیا  بلکہ آج تیس سال بعد نواب خیر بخش مری کے بوئے ہوئے بیج  کامریڈ ماہ رنگ جیسے تناور درخت  بن چکے ہیں۔نواب خیر بخش ایک قدرآور انقلابی رہنما کے ساتھ ایک انقلابی دانشور بھی تھے ، انہوں نے اس وقت لوگوں کو لالچ، پیسہ، مراعات کے بجائے نظریاتی طور پر  اپنے ساتھ شامل کیا جبکہ اپنے لوگوں کی تربیت انقلابی نقطہ نظر کی بنیاد پر کی تھی اور آج ہم اصلاح پسند و اعتدال  پسند نقطہ نظر کے برعکس ماہ رنگ کےانقلابی نقطہ نظر کو دیکھتے ہیں تو ہمیں  یقین ہوجاتا ہے کہ نواب مری  کی انقلابی دانش آج بھی  ہماری نسلوں کی تربیت کررہی ہے۔ ۱۹۶۰ میں جب غوث بخش بزنجو خفیہ پارٹی کے تشکیل کے موقع نواب مری کا اعتماد توڑ دیتے ہیں تو اسی دن نواب خیر بخش سمجھتے ہیں کہ غیر انقلابی اور معتدل رویوں کے مالک سیاسی کارکن تحریک میں کنفیوژن اور ابہام کے باعث بنتے ہیں اور اس دن سے نواب مری  اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تحریکی کارکنان اپنے صفوں میں انقلابی رویے اور نقطہ نظر کو اپنا لے اور نواب مری کے اس موقف کے سبب بلوچ سماج میں غوث بخش سے لیکر ڈاکٹر مالک جیسے لوگوں کی کردار اور سیاسی حیثیت عام عوام میں واضح ہوگئی ہے۔ جبکہ بلوچ عوامی سیاست کے اندر بھی بابا مری کے انقلابی طرز فکر کے خلاف پروپیگنڈے کیے گئے اور انقلابی نقطہ نظر کے برعکس اصلاح پسند اور اعتدال پسند نقطہ نظر کو جگہ دینے کی کوشش کئی گئی اور وقتی طور پر ان رویوں نے بلوچ سیاست پر اپنے اثرات بھی چھوڑے تھے اور ہم جیسے لوگ بھی سمجھ رہے تھے کہ شاید اب یہی اصلاح پسند نقطہ نظر بلوچ عوامی سیاست کے زینت ہوگی لیکن کامریڈ ماہ رنگ جیسے نوجوان سیاسی کارکنان کا سامنے آنااور بابا مری کے طرز فکر کواپنانا ، اس کے طرز فکر پر عوام کو یکجاہ کرنا اور عوام میں اتحاد پیدا کرنے سے ہم لوگوں میں وہ امیدیں دوبارہ زندہ ہوگئے کہ خیر بخش کے انقلابی طرز فکر کے بنیاد پر یہ تحریک آگے بڑے گی۔

ہماری عمر شاید اگر ومگر میں گزر گئی اور ہم کچھ کر نہ کرسکے اور ہم نواب مری کے فکر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے  لیکن آج میں کوئٹہ پریس کلب میں جب بھی ماہ رنگ کو دیکھتی ہوں تو مجھے نواب مری کے حق توار سے نکلنے والے انقلابی جذبے سے سرشار نوجوان کامریڈ غفار لانگو نظر آتے ہیں اور مجھے ایک امید اپنے آغوش میں لیتی ہے کہ ہم نواب مری کے فکر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے لیکن یہ نوجوان نسل اس کاروان کو منزل مقصود تک پہنچائے گی ۔ اس دن ایک نوجوان سیاسی کارکن نے ٹیلیفون پر  مجھے بتایا کہ تربت سے نکلنے والا لانگ مارچ کوئٹہ پہنچ رہا ہے تو پہلے روز تو میں نہیں جاسکا لیکن جب میں دوسرے روز وہ گیا تو میں نے ہر نوجوان کے چہرے پر فکر خیر بخش کو دیکھا ، میں نے نعروں میں خیر بخش کے للکار کو دیکھا اور پھر اسٹیج پر خطاب کے لیے کامریڈ ماہ رنگ آگئےوہ جس واضح انداز سے اپنا موقف رکھ رہی تھی ، جس جرت سے وہ اپنے الفاظوں کو ادا کررہی تھی، جس جذبے سے اس کے آنسوں گررہے تھے میں نے پاس بیٹھے اپنے نوجوان سیاسی دوست سے کہا کہ اب سے تحریک میں غوث بخش کے فکری وارثوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اب اس قوم کو کوئی الفاظوں کے ہیر پھیر سے گمراہ نہیں کرسکتا ہے اب یہاں خیر بخش کے فکر کے وارث ماہ رنگ جیسے بہاد ر اور نڈر سیاسی کارکن موجود ہے۔

میں بحیثیت ایک ناکام سیاسی کارکن کے کامریڈ ماہ رنگ جیسے نوجوان قیادت کو دیکھ کر بہت پر امید ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ خیر بخش کے فکری وارث نہ صرف زندہ ہے بلکہ وہ  ہمارے سوچ و توقعات سے کئی زیادہ نڈر، بہادر اور  جرت مندانسان ہے لیکن اس کے ساتھ  ایک خوف بھی موجود ہے کہ ہمارے لوگ اس نوجوان کے راہ میں رکاوٴٹ نہ بن جائے کیونکہ میں اپنے لوگوں سے واقف ہوں ، میں بی ایس او کے زمانے سے ان کے دکانداری اور کھینچا تانی کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں  لیکن شاید اب کے بار ہم ماضی کےغلطیوں کو نہیں دھرائے گے، ہمیں بہت عرصے بعد ایسی نوجوان قیادت میسر ہوئی ہے،  دہائیوں بعد فدا کے کیچ سے لیکر بالاچ کے کوہ سلیمان تک بلوچ یک مشت و یک آواز ہے ، بلوچ ایک جھنڈے ، ایک قیادت اور ایک مقصد کے سائے تلے متعد ہے ، اب کے بار قوم کے مایوس نہیں کرنا ہے، فدا جیسے نوجوانوں کے راہ میں رکاوٴٹ کھڑی کرکے بلوچ عوامی تحریک کو دہائیوں پھچے دھکیلا گیا اب ماہ رنگ کے سامنے رکاوٴٹ کھڑی کرنے کے بجائے ہمیں اس نوجوان کا حوصلہ بننا چاہیے، ہمیں اس کے اور اس کے نوجوان ساتھیوں کے امید بننا چاہیے، ہمیں ان کے قیادت میں ان کے ساتھ چلنا ہوگا ۔   ان نوجوانوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے، ان میں صلاحیت ہے، یہ باشعور اور تعلیم یافتہ نسل ہے ، یہ لالچ، چاپلوسی اور مفافقت سے پاک نسل ہے اور یہ ڈر اور خوف سے بلکل بیگانہ نظر آتے ہیں۔ ایک خالص انقلابی کی طرح یہ نوجوان چل رہے ہوتے ہیں  ، آج کیچ سے کوہ سلیمان تک لوگ انہی نوجوانوں پر یقین کررہے ہیں اور انہی کے قیادت میں ساتھ چلنے کو تیار ہے۔

بس آخر میں اتنا کہتا ہوں کہ ہمیں فکر خیر بخش کے ساتھ چلنا ہوگا اور فکر خیر بخش کے کاروان کو کامریڈ ماہ رنگ جیسے نوجوان قیادت کررہے ہیں، ہمیں قدم سے قدم ملا کر ان کےروان کے ساتھ چلنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔