آؤ ان پیروں کو چومیں ۔ محمد خان داؤد

179

آؤ ان پیروں کو چومیں

تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ

بہتے نینوں کو بہت دیکھا
گونگی بولتی زبانوں کو بہت دیکھا
بھیگی اداس آنکھوں کو بہت دیکھا
روتی مائیں،چیختی بہنیں
ماتم،صدائیں
سفر دربدر
ویرانوں راہوں میں پڑاؤ
منتظر دید،آہیں،بن منزلوں کے تھکا دینے والے سفر
اُسیڑو(انتظار)اُمید،نا اُمیدی
دھول سے اٹی جوتیاں
کیا کچھ نہیں دیکھا۔اداس ماؤں کا ماتم۔بوڑھے والدین کی خاموشی،سیاسی اداکاروں کے ڈٹو(فراڈ)پیشیاں۔سفر،نعرے،خاموشی۔چیخیں،رونا۔گھروں کو،محلوں کو،گلیوں کو۔رشتوں کا بہت پیچھے رہ جانا۔اداس مانگوں کو دیکھا،دید کو جاتے دیکھا۔ماؤں کا لاشوں سے لپٹتے دیکھا،بہنوں کو پاگل ہو تے دیکھا۔بن باباؤں کے بیٹیوں کو جوان ہو تے دیکھا،ماتم دیکھا۔اداس شاموں کو دیکھا،مغموم صبحوں کو دیکھا،ماتمی راتوں کو دیکھا،دلوں کا دہل جانا دیکھا،بیٹیوں کو باباؤں کو تلاشتے دیکھا۔اداس چاند کو دیکھا کفن میں لپٹی دھرتی کو دیکھا۔پتھروں کو روتا دیکھا۔پہاڑوں کو سوگ مناتے دیکھا۔لاوارث لاشوں کو دیکھا،ندی میں مرتا چاند دیکھا۔بے نور سورج دیکھا۔پہاڑوں کو لہو لہو دیکھا۔چیختی بندوقوں کو دیکھا۔دھول سے اٹے جوتے،اداس دل دیکھے۔منتظر دید دیکھی۔ماؤں کو ہاتھ تھامے مسافر بیٹیاں دیکھیں۔شہر بد اماں دیکھے،خالی گھر دیکھے۔ماتمی لباس دیکھے۔جدائی کی آگ میں جلتی سکھیاں دیکھیں۔ہواؤں سے ہلتے در دیکھے۔گھروں میں گُل دئیے دیکھے۔ماؤں سے سوال کرتے معصوم بچے دیکھے۔ہاتھوں میں مٹتی تصوریں دیکھیں۔ماؤں کا گم شدہ بیٹوں کا پکارنا دیکھا۔نیندوں کا مرنا دیکھا۔آنکھوں میں خوابوں کا جلنا دیکھا۔ماؤں کے ساتھ،گھروں کے در،چاند کو جاگتے دیکھا۔منتظر ماؤں کا دفن ہوتا وجود دیکھا۔پیر دیکھے،پیروں کا جلنا دیکھا،پہاڑ دیکھے،پہاڑوں کے دامنوں میں جعلی مقابلوں میں دفن ہوتے بالاچ دیکھے،سمیر دیکھے حمل دیکھے،ہانیوں کے شہہ مرید دیکھے
اس شعر کو با معنیٰ دیکھا
”گھر تہ ستو آ بھاتین سان بھاکریں
اے کھڑکندڑ در
چھو بھلا سُمین نتھو؟
”گھر تو اپنے چاہینے والوں کے ساتھ جھپی پاکر سو گیا
اے کھڑکتے در!بھلا تم سوتے کیوں نہیں؟
سفر میں غم کی سیمفینی دیکھی،اداس کیمپ دیکھے۔اداس کیمپوں میں جلتے دل دیکھے،میں نے کیا تم نے کیا منتظر ماؤں نے بھی بس اپنے بچوں کو مٹتی تصاویروں میں دیکھا۔آتے سورج کو دیکھا ڈوبتے سورج کو دیکھا لطیف کے اس دردیلے شعر کو بلوچستان کی بیٹیوں نے ما معنیٰ دیکھا
”آؤن نہ گڈیس پرین ء کھے
تون تھو لھین سج؟!“
”میں تو اپنے محبوب سے نہیں مل پائی
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورج تم ڈوب رہے ہو؟!“
آنسوؤں کا دریا دیکھا،بھیگی آنکھوں کو دیکھا،خالی ندیوں کی طرح سوکھی آنکھوؤں کو دیکھا،بارشوں کو دیکھا اور برستی بارشوں میں پیسترک کی اس بات کو با معنیٰ ہو تے دیکھا کہ
”جب بارش ہو تی ہے تو میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر باہر دیکھتی ہوں
کہ دور سے کوئی آ رہا ہے،اور برستی بارشوں میں مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا ہے!“
ہم نے بلوچستان میں برستی بارشیں بھی دیکھیں،پر کھڑکی کے پاس بیٹھ جانے سے اور بہت دور دیکھنے سے بس انتظار ہی ملا۔بے ہودہ بارود دیکھا،چیختی بندوقیں دیکھیں دوڑتی آگ کی گولیاں دیکھیں جو جعلی مقابلے کے نام پر پہاڑوں کے دامنوں میں چلائی گئیں اور بہت دور گاؤں کے دامنوں میں سوتی ماؤں کی نیندیں ماری گئیں یہ بات کیسی اداس کر جانے والی ہے کہ
”پہاڑوں میں گولی چلی
گھروں میں ماؤں کی نیند ماری گئی!
دیس نے بس جلتے پیر نہیں دیکھے،پر جلتا دل بھی دیکھا
دیس نے بس جلتی آنکھیں نہیں دیکھیں،پر دیس نے جلتا دامن بھی دیکھا ہے
جب دامن ہی جل جائے تو پھر کیا بچتا ہے؟
پر اب دیس نے کروٹ لی ہے،ایسے جیسے معصوم بچے مسکراتے چہروں کے ساتھ ماؤں کو دیکھتے ہیں
دیس بھی تو ماں ہے
اور محبوباؤں نے دیس کی طرف کروٹ لی ہے
مُسکرایا ہے،کُرلائی ہیں (ہنستے ہنستے مسکرائی ہیں!)
اب دیس نیا سویرہ،نئی صبح دیکھ رہا ہے
اب دیس نئی اُمید سے جاگ رہا ہے
اب پیر دیس کے دامن پر نہیں
پر اب دل پر پڑ رہے ہیں
اور دیس جاگ رہا ہے
یہ سسئی کی بہنیں ہیں
یہ جدید دور کی سسیاں ہیں
یہ سُرخ رو ہیں
یہ دھرتی کا روح ہیں
اور اب دھرتی اپنے تمام تر روح کے ساتھ جاگ رہی ہے
بہت دور مہندی کے کھیت ان کے گیت گا رہے ہیں
ان کے لیے مندروں میں دئیے جل اُٹھے ہیں
یہ دھرتی کا عشق ہیں
یہ دھرتی کا گیت ہیں
یہ قاضی کی پوری پوری غزل ہیں
بہت دور کارونجھرکی کور پر مور اپنے پر کھول کر ان کے لیے ناچ رہے ہیں
شال کی گلیاں ان کے پیروں کے نقش چوم رہی ہیں
یہ لطیف کا رہ جانے والا سُر ہیں
یہ پہاڑوں کی عزت ہیں
انہیں دیکھ کر پہاڑوں کے سر فخر سے بلند ہیں
یہ سر بُلند کی بہنیں ہیں
یہ دیس کی بارشیں ہیں
یہ پھولوں کی مہک ہیں
یہ درد کا دلاسہ ہیں
اس وقت جب پورا دیس درد کی دانھن بنا ہوا ہے(چیخ)
تو یہ دیس کا دلاسہ ثابت ہو رہی ہیں
یہ اپنے اپنے پنہوں کی تلاش میں ہیں
پورا دیس پنہوں ہے
اور یہ سسیاں!
یہ سکھیاں ہیں
ایسی سکھیاں جو اپنے محبوب کو کہتی رہی ہیں
”چاندنی تو سوا نہ تھنیدی!“
وہ اپنے دیس کے محبوب کو تلاش رہی ہیں
ان کے دو محبوب ہیں
ایک وہ جو ان کے گیسوء سنوارے
او ر ایک وہ دھرتی جس کے دامن کو تھام کر یہ چل رہی ہیں
یہ دیس کے رنگ ہیں
دیس ان کے رنگوں میں رنگ گیا ہے
یہ نئے سورج کو لائیں ہیں اور نئے چاند کو طلوع کر رہی ہیں
یہ پکار ہیں،صدا ہیں۔للکار ہیں!
ایسی للکار جس سے للکار دیس نیند سے جاگ اُٹھا ہے
یہ نئی گونج ہیں ایسی گونج جس گونج کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”کونج بہ کائی گونج پریان ء جی!“
یہ چاند کو طلوع کریں گی
اور دیس کے اندھیرے کو دور کریں گی
آؤ ان پیروں کو چوم لیں
جو دیس پر محبت سے پڑ رہیں ہیں
اور دیس جاگ رہا ہے
آؤ ان پیروں کو چوم لیں
جو دھرتی کے دل پر پڑ رہے ہیں
اور دھرتی مسکرا رہی ہے
آؤ ان پیروں کو چوم لیں
جو دھرتی کے دامن پر پڑ رہے ہیں
اور دھرتی رنگوں سے بھر گئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔