کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج 5222 ویں روز جاری

66

جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5222 دن ہوگئے۔ بی ایس او پجار کے سابقہ چیئرمین زبیر بلوچ، نثاء بلوچ، بلال بلوچ و دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس بات کو رد نہیں کرسکتا کہ نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں قومی تحریک میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے اگر تم کسی قوم کو بغیر جنگ کے ختم کرنا چاہتے ہو تو اس قوم کے نوجوانوں میں منشیات اور فحاشی عام کرو تو وہ قوم جلدی تباہ ہو جائے گی، بغیر لڑے غلامی قبول کرے گا۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کہ آواز مہذب دنیا اور امریکی ایوانوں تک پہنچ چکی ہے اور پاکستانی ریاست اور مقامی گماشتے پارٹیوں کی لیڈرشپ کی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں اپنے حقوق حاصل کریں گے لیکن نوجون انکی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں، بلوچ نوجوان ہر مشکل گھڑی میں سخت حالات کا سامنا کرکے پرامن جدجہد سے دستبردار ہونے کے بجائے اپنے موقف پر آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ بلوچ اسیران کے عدم بازیابی کے خلاف جبری لاپتہ بلوچ اسیران کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ہمراہ اپنا احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے 2001 سے لیکر اب تک ساٹھ ہزار کے قریب بلوچ خواتین بچے بزرگ اور نوجوان جبری لاپتہ ہیں اور اب تک جبری لاپتہ بلوچوں کے بیس ہزار 20000 سے زاہد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں ان میں متعدد بلوچوں کو ٹارگٹ کر کے شہید کردیا گیا ہے۔