کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5227 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر تربت سے سیاسی سماجی کارکن وسیم سفر اور دیگر مرد خواتین نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج نوجوان ہمت کے کھندوں پر شعور اور آگاہی بٹھا کر رد انقلابیوں کے جابہ جا بچھائے گئے کانٹوں سے لہو لہان سہی مگر دھن کے پکے من کی آتش سے روشنی پاکر اپنے عظیم مقصد کے حصول کے لئے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہزاروں بلوچ فرزندوں کی سی ٹی ڈی، ایف سی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدگی اور ان کی حراستی قتل میں تیزی بلوچ قوم تحریک کی کامیابی اور ایٹمی ریاست کی بے بسی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ خضدار میں جعلی مقابلہ کے تین لاپتہ افراد کی تشدد شدہ مسخ لاشیں پھینکی گئیں ، جن کی شناخت آفتاب سمالانی، حمزہ، عبداللہ کے نام ہوگئی جنہیں فورسز نے ان کو مختلف اوقات ان کے گھروں پر چھاپہ مار کر جبری اغوا کر دیا تھا جو سب کے سب نہتے تھے۔ ریاست پاکستان برسرپیکار مسلح قوتوں سے مقابلہ کی سکت اور ہمت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے نہتے عوام اور سیاسی کارکن کو جبری اغوا بعد حراست دوران بدترین ٹارچر سے شہید کرنے کا روش اپنا چکی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ لیڈر شپ کو اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے اور نئی حکمت عملی کے بارے میں غور، فکر کرنی چاہیے اور اپنے اندرونی اختلافات ایک دوسرے پر الزامات لگانے ہیروازم کو ایک جانب رکھ کر اپنے اندر برداشت اتحاد اتفاق پیدا کرنا چاہیے اگر ہم اس طرح تقسیم در تقسیم رہیں اور ایک دوسرے سے نزدیکی کے بجائے دور بھاگتے رہیں تو ہم کبھی بھی اپنے منزل کی بجائے دور بھاگتے رہیں تو ہم کبھی بھی اپنے منزل کو نہیں پہنچ سکتے اتحاد اتفاق ایک دوسرے کو برداشت کرکے ایک ہوکر ہی ہم اپنی منزل کو پا سکتے ہیں۔