کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

140

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5191 روز جاری رہا۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کراچی، کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں کے حساب سے نوجوان، طلبا، بچے اور بزرگوں کو سندھ میں رینجرز بلوچستان میں ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکار اور سی ٹی ڈی نے جبر اغوا کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزیدکہا کہ متاثرہ لواحقین مایوسی کے عالم میں مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر انکے لاپتہ پیارے شہید کئے جا چکے ہیں تو براہ کرم انکی لاشیں ہی حوالے کردیں تاکہ انتظار کا کرب تو ختم ہو سکے۔ لواحقین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے کئے جانے والے پرامن جدجہد کے جرم کی ریاستی قانوں میں تجویز کردہ کسی بھی سزا کے معافی کے طلب گار نہیں ہیں اگر انکے پیاروں نے کوئی ایسا جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جو بھی سزا مقرر ہے انہیں دیا جائے چاہے وہ موت کی ہی کیوں نہ ہو لیکن لواحقین کے اس مطالبے پر بھی عملدرامد سے اجتناب برتا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ضمن میں کسی حد تک آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں مگر وہ اس سلسلے میں باقاعدہ پرامن جہد مسلسل سے پہلو تہی کررہی ہیں جس سے ریاستی قوتوں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے اور وہ اس انسانیت سوز عمل کو بلا توقف جاری رکھے ہوئے ہیں جسکا مظاہرہ آئے روز فورسز خفیہ اداروں کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی کاروائیوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جن میں سینکڑوں بلوچوں کو جبری اغوا نما گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ہے ابھی چند دن پہلے پے درپے کئے جانے والے آپریشنز میں عام تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو ریاستی حراست میں لیا گیا تھا انہیں اب تک کبھی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف لاپتہ بلوچوں کی تشددزدہ مسخ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کے علاوہ فورسز کی کاروئیوں میں عام بلوچوں کی املاک مال مویشیوں کی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بھی بلوچ سماج کے دکھوں اور صدمات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔