انقلاب کے کارکن، بلوچ مائیں – صبیحہ بلوچ

588

انقلاب کے کارکن، بلوچ مائیں

تحریر: صبیحہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎چند سالوں پہلے ہم نے ایک تصویر دیکھی، جس میں ایک بلوچ ماں ‎ایک لاش کے پہلو میں بیٹھ کر لاش کے اوپر جھکی ہوئی ہے، اس ماں کے آنکھوں میں آنسو نہیں مگر درد ہے، ازیت ہے، وہ ماں اپنے بہادر سپوت کو اشکوں سے الوداع نہیں کرنا چاہتی، اسے سینے سے لگاکر اپنے فخر کا اظہار کر رہی ہے، یہ وہ تصویر تھی جو منظر کشی میں ہم نے اپنے طرح سے بیان کیا، ہم نے اس ماں کو کبھی دیکھا نہیں تھا، تصور میں وہ انقلاب کے ان ماوں کی تصویر کی طرح اُتر گئی جیسے میکسم گورکی اپنے انقلابی فن پارے میں بیان کرتی ہے، جیسے وہ ماں اس تصویر سے باہر ایک انقلابی کارکن ہو۔۔۔۔یہ تصویر سے متعلق تصورات تھی پھر یوں ہوا کہ وہ ماں تصویر سے باہر متحرک نظر آئی بلکل اسی طرح جو ہم نے سوچا تھا، جیسے ہمارے تصور میں وہ انقلاب کی کارکن تھی ویسے ہی وہ حقیقت میں جذبہ انقلاب کے ساتھ، درندوں سے لڑنے میدان میں اُتر آئی۔

‏‎وہ ماں لمہ بس خاتون ہے، جسے ہم نے تب دیکھا جو وہ اپنے گمشدہ بیٹے راشد حسین کے جبری گمشدگی کے خلاف سڑکوں پہ آجاتی ہیں، وہ ماں صرف راشد کو ڈھونڈنے کے جذبے سے نہیں آتی بلکہ وہ ہر اس شہزادے کا درد دل میں لیکر لڑتی ہے جو اس جنگ میں شہید ہوئے یا گمشدہ ہوئے، ہیں زہری جیسے علاقے سے سینکڑوں لاپتہ فرزند جن کی تعداد ہمیں معلوم بھی نہیں یہی ماں انکے تصویریں و معلومات سامنے لے آتی ہیں، اور انہیں علاقوں میں اپنے جدوجہد کی کہانیاں نہیں بلکہ حسیبہ سمی و سیما کی نا تھکنے والے جدو جہد کے افسانے سُنا کر ہمتیں بانٹتی ہیں، وہ ماں جو پشومان نہیں اپنے بیٹے کی شہادت پہ، اور راشد کے لیے بھی اپنے جدوجہد کو قوانین کے دائرے میں بیان کرکے ہی انصاف طلب کر رہی ہے، وہ ماں جو طلباء کے مسائل کے لیے کسی بھی قسم کا احتجاج ہو تو اظہار یکجہتی کرنے کے لیے ضرور آتی ہیں، وہ ماں جو اپنے عمر کے اس پہر میں کبھی شال، کبھی اسلامآباد تو کبھی کراچی کے سڑکوں پہ نعرے لگاتے نظر آتی ہے، ویسے ہی جیسے میکسم گورگی کے ناول کے ماں کا کردار اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد تنظیم کے کارکن کے طور پر آگے بڑھتی ہے، ویسے ہی جیسے زاکر کی ماں جب بھی آگے آتی ہے تو راشد و زاہد کی ماں کے طور پر آتی ہے ویسے ہی جیسے وہ بلوچ مائیں جو اب تک تحریروں میں نہیں اتری مگر وہ ہمت و جرت کے راستے میں پاسبان بنتے گئے۔

‏‎راشد حسین کو یو اے ای اٹھانے سے لے کر چاغی ایئر پورٹ تک لے آنے کے تمام ثبوت و گواہ موجود ہونے کے باوجود ریاست کا راشد حسین کو نا کہ عدالت میں پیش کرنا اور نا ہی لواحقین کو کوئی تسلی بخش جواب دینا بلکہ اس کے برعکس انہیں جی آئی ٹی وغیرہ میں جھڑکنا، مایوس کرنا، اور دیوار سے لگانا اس ریاست کی ننگی بربریت، مکار پن اور بلوچ کش پالیسیوں کی عکاسی ہے اور ساتھ میں راشد حسین کی ماں اور ان جیسے باقی لواحقین کی کہانیاں ہمارے لیے جرت و ہمت کا سبب بن رہے ہیں۔

‏‎گوکہ یہ جدوجہد مشکل ہے، گو کہ لوگ اسے صرف راشد حسین کے فیملی کا مسئلہ سمجھ رہے ہیں مگر یہ باشعور ماں جو ایک جوان بیٹے کو قبر میں اتار کر دوسرے بیٹے کے لیے میدان میں اتری ہے یہ باشعور ہے، یہ جانتے ہے کہ مسئلہ راشد حسین کا نہیں بلکہ یہ ایک قبضہ گیر کو جھٹلانے کا مسئلہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔