الوداع، الوداع، فریفتہ جلیس الوداع! – برزکوہی

783

الوداع، الوداع، فریفتہ جلیس الوداع!

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے بے رونق اوراق میں ہمیں اپنے اس قوم پرست شہید کی اداس پرہیزگاری ملتی رہے گی، ایک ایسی طلسماتی موجودگی جو وقت کی مدھم راہداری میں دیر تک بجھی ہوئی موم بتیوں کی خوشبو کی طرح رہتی ہے۔ یہ شہید، پرجوش عقیدت کی ایک لرزتی ہوئی علامت، قوم کے دوبارہ جنم کے طوفانی تھیٹر میں قربانی کا درخشاں باب بن گیا۔

اس کی زندگی نظریات کا ایک طوفان تھا، ایک ایسا لامتناہی طوفان، جو اجتماعی شعور کو چیرتا ہوا، جہالت کا ملبہ اور انقلاب کی گونج چھوڑدیتا تھا۔ ایک ہزار لڑائیوں کے ہراول دستے میں، وہ انصاف کی غیر میانتی تلوار کے طور پر کھڑا تھا، اس کے جسم پر ہزار زخموں کے نشان تھے، جن میں سے ہر ایک لچک کا ایک خوفناک گانا کھینچ رہا تھا۔

شہید کے الفاظ خزاں کے پتوں کی طرح ٹوٹے ہوئے اور سنہرے، یقین کے درخت سے گرتے تھے۔ اس کی آواز، انحراف کی سمفنی، ایک تاریک جنگل کی شاخوں سے ہوا کی طرح سرگوشی کرتی، مظلوم لوگوں کے راز اپنے ساتھ لے جاتی۔ وہ بے لگام دریا تھا، بے حسی کے بنجر خطوں کو تراش رہا تھا، آزادی کے لیے تڑپنے والوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔

اپنی زندگی کے آخری عمل میں، شہید نے اپنی مرضی سے شہادت کے سرخ داغ کفن کو گلے لگالیا، بالکل اسی طرح جیسے سورج افق سے نیچے ڈوب رہا ہو، اوبیسیڈین رات میں دم گھٹنے سے پہلے دنیا کو اپنا آخری آتشی بوسہ دے رہا ہو۔ اور اس لمحے میں، جیسے ہی اس کے دل کی دھڑکن سست پڑ گئی، اس نے اپنے روح کو زمانوں کے حوالے کر دیا۔ ایک لازوال برج بن کر، آزادی کے لیے جاری جدوجہد کا ایک آسمانی ہیرالڈ بن گیا۔

اس کے نام پر بہنے والے ہر آنسو کے ساتھ یاد کا ایک پھول کھلا، جس کی پنکھڑیاں متحیر اور غمگین تھیں۔ اس کی وراثت، یادوں کے گلیاروں میں ایک سرگوشی کی گونج، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمت اور یقین بادلوں کے تاریک ترین سینے کو چھید سکتا ہے، جو امید کی چاندی کی پرت کو ظاہر کرتا ہے۔

شہدا کی قربانیوں کی گونج میں ہمیں وطن سے لازوال محبت، پہاڑوں کی اٹوٹ زنجیر یا طوفانی پانیوں میں کھوئی ہوئی روحوں کی رہنمائی کرنے والی غیر متزلزل مینارہ جیسی شدید اور غیر متزلزل محبت کا مجسمہ ملتا ہے۔ وہ محض شہید نہیں ہے۔ وہ راکھ سے اٹھنے والا فینکس ہے، جو نسلوں کے دلوں کو اپنی عزت کے لازوال شعلے سے روشن کر رہا ہے، ہمیشہ کے لیے انصاف کے راستے پر ایک نورانی چمک ڈال رہا ہے۔

سورماوں و کامریڈوں اور خاص طور پر آزادی کی پر کھٹن راہ میں بچھڑنے والے شہیدوں کی تمام یادیں اور خیالات تو ویسے ہی ذہن میں ہمیشہ ہمیشہ نقش رہتے ہیں، مگر کچھ خاص یادیں لمحہ بہ لمحہ دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

جب گرو جبار کی شہادت کی خبر سنی تو مجھے وہ صبح بہت یاد آئی جب ہم بیٹھے مباحثہ کررہے تھے۔ میری باتوں کی ابتداء بل فائٹروں سے ہوئی کہ ارنسٹ ہمینگوے کا لکھا ایک افسانہ ” ناقابلِ تسخیر “ ہسپانوی ” بُل فائٹروں” کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں ہمینگوے منظر کشی کرتا ہے کہ کیسے بدمست بھینسوں سے گرم خون نوجوان لڑتے، انہیں زیر کرتے ہیں، اور کیسے ان لڑائیوں میں نوجوان خود کبھی مرتے اور کبھی اتنے زخمی ہوجاتے ہیں کہ پھر لڑائی کے قابل نہیں رہتے۔ وہ ان تھکے ہوئے “بُل فائٹروں” کا بھی نقشہ کھینچتا ہے، جن میں سے کچھ بل فائیٹنگ کا پیشہ چھوڑ کر مقامی اخباروں میں ناقد کی نوکری اختیار کرتے ہیں اور مجمعے میں تھکے ہوئے بیٹھ کر، شمپیئن کی گرم بوتل سے گھونٹ لگاتے ہوئے لڑائی دیکھتے ہوئے، بس یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہاں کیا غلطی کررہا ہے اور پھر اس پر ایک تنقیدی مضمون اگلے دن کے اخبار میں چھاپتے ہیں۔ جب کسی “بل فائیٹر” کے جسم میں بھینسے کا سینگ لڑتے ہوئے اتر جائے تو ان “سینئر” تھکے ہوئے “بل فائٹروں” کی چاندی ہوجاتی ہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ نوجوان کی نا اہلی کے بابت انکی پیشن گوئی درست ثابت ہوگئی، پھر وہ جلدی سے قینچی اٹھاکر اس بل فائٹر کا “کولیٹا ” کاٹنے پہنچ جاتے ہیں۔ ( کولیٹا بل فائٹروں کے بالوں کی ایک مخصوص چوٹی ہوتی ہے، ریٹائر ہوتے وقت جسے وہ کاٹ دیتے ہیں۔)

بہت کم انسانوں کی سرشت میں سننے اور سمجھنے کی لا محدود صلاحیت کے ساتھ ساتھ بولنے کی بھی ہمہ جہت ہنرموجود ہوتا ہے، جو اپنے اندر کئی خاموش و گہرے قانع قلزم زخاز رجائیت رکھتے ہیں۔

دو استاد، دو کامریڈ، دو مہروان، دو بہادر اور دو رجائیت پسند وطن کے جانثار سپوت کامریڈ مقصود عرف مہروان اور سنگت مسلم عرف گرو جبار۔۔۔۔

کوئی بھی انتہائی خطرہ مول لینے والے معرکہ و محاز اور مشن کو دل و جان سے قبول کرنا اور پھر انتہائی شوق فراوان و دلچسپی اور جنون کی حد تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا، کامریڈ و استاد گرو کی انقلابی سرشت تھا۔
شش و پنج و تذبذب کے شکار اور ناممکنات اور ناکامیوں میں غرقاب ہونے کے خوف میں مبتلا انسان سیماب فطرت اور بونا قد ہوتے ہیں۔

معمولی ذمہ داری سے بڑھ کر لامحدود، غیر معمولی، ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لینا اور زندگی کو بے سکون و عدم خوشی اور مسلسل خطروں کی جھونکوں میں ڈال کر بے حد سکون و خوشی اور لذت محسوس کرنا عظیم انسانوں کی سرشت ہوتی ہے۔

مہروان کامریڈ المعروف ماس یعنی ماں
دوستوں کا ہمیشہ یہی رائے تھا کہ ماں سے زیادہ مہر و محبت اور شفقت ہمیں کامریڈ سے ملتا ہے۔ وطن سے عشق اور عشق وطن میں وطن زادوں سے بے پناہ مہر و محبت، آخری سانسوں تک بھی اپنے باقی دوستوں کی پاسبانی کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنا۔ یہی سرشتِ دیوانگی ہے۔

جبار گرو، استاد گرو
شہید استاد گرو کے حوالے سے کچھ کہنے سے قبل بار بار میرے ذہن میں فلسفی گرورجنیش اوشو کی یہ باتیں گھومنے لگتی ہیں کہ “سماج، استاد کی مدد سے ہزاروں سالہ قدیم بدگمانیاں، کدورتیں، فرسودہ خیالات چھوٹے بچوں کو زہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ پرانے لوگ استاد کے ذریعے ایسی چیزیں بطور ورثہ نہیں نسلوں کے اذہان کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ معاشرہ استاد سے اس قسم کے کام لینا چاہتا ہے اور استاد مسلسل یہ کام کیئے چلا جاتاہے، میری راۓ میں کوئی شخص صرف اسی صورت میں حقیقی استاد بن سکتا ہے، جب اس کی ذات میں بغاوت کا طاقتور شعلہ روشن ہو۔”

کوئی بھی معمولی یا غیر معمولی مشن ہو، اسے کوئی بھی جہدکار اس وقت تک اپنے کندھوں پر اٹھانے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہوتا، جب تک اس کے ذہن میں ناممکنات کا وسوسہ وجود رکھتا ہو اور ہر مشن اس وقت تک ناممکن ہی تصور ہوتا ہے، جب تک وہ مکمل نہ ہو۔ ہر مکمل مشن میں قبل از مکمل ناممکنات وجود رکھتے ہیں، ہر اس زہن پر جس میں خود اعتمادی، ہمت، رسک اور مستقل مزاجی کا فقدان ہو۔

گروو ایک مستقل مزاج، جنگی و فوجی حکمت عملی سے لیس استاد تھے۔ رابرٹ انتھونی کہتے ہیں
‏ “when you blame others، you give up the Power to change. ”
‏‎ ” جب آپ دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، تو آپ تبدیل کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔”

گرو یہ نہیں کہتا تھا کہ تنظیم و تحریک اور جنگ میں جدت اور تبدیلی لانا چاہیئے، بلکہ وہ عملا کوشش کرکے مسلسل پہلے خود کو جنگی و تنظیمی تقاضات کے مطابق تبدیل کرکے تنظیم و تحریک اور جنگ میں جدت و شدت پیدا کرنے میں نئی جنگی ایجادات اور ہنر پیش کرتے تھے۔

نظریہ و فکر، وطن دوستی، بہادری، خلوص، جذبہ، ہمت اور سب سے بڑھ کر خطرہ مول لینے اور قوت فیصلہ ہر جنگی سپاہی سے لیکر کمانڈر تک دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب سپاہی اور کمانڈر کے لیے انتہائی لازمی اور پہلا شرط جنگی مہارت ہے۔ اس کے بغیر وہ دشمن پر نہیں بلکہ دشمن اس پر غالب آتا ہے۔ استاد گروایک کامل و متحرک جنگی کمانڈر تھے۔
‏‎پاؤلو کوئیلو کے ناول ’’کیمیاگری سے
‏‎وہ ہمیشہ نئے دوست بناتا تھا، مگر ان کے ساتھ ہمیشہ رہنے سے گریز کرتا تھا۔ اس کے خیال میں جب آپ کسی کے ساتھ زیادہ دیر تک رہیں تو آپ اُس شخص کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور انکی چھوٹی چھوٹی خامیاں آپ کو بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں۔ پھر آپ چاہتے ہیں کہ وہ شخص اپنے آپ کو بدل لے۔ اگر کوئی شخص اس طرح نہیں ہے، جیسا کہ آپ چاہتے ہیں، تو آپ کو جھنجھلاہٹ ہونے لگتی ہے۔ ہر شخص کو اس بات کا صحیح ادراک ہے کہ دوسروں کا رویہ کیسا ہونا چاہیئے، مگر وہ اس احساس سے عاری ہیں کہ خود ان کو کس طرح برتاؤ کرنا چاہیئے۔

فلسفی تھیلس سے کسی نے پوچھا، سب سے آسان چیز کیا ہے؟ فلسفی نے فرمایا کہ نصیحت کرنا۔

استاد گرو اس قبیل میں شامل تھا جو تبدیلی، قربانی، بہتر کارکردگی، زمہ داری، دلچسپی، تنظیمی نظم و ضبط، اعلیٰ کردار اور علم و شعور دوسروں میں ہونے کی توقع و امید اور خواہش رکھنے سے زیادہ، اپنے آپ سے توقع اور امید کی خواہش رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے۔

گودھولی کے آنسو بھرے پردے کی خاموشی میں، ہم آج اپنے ان پیارے قومی شہیدوں کو الوداع کرتے ہیں، جو مقصد کے لیے اٹوٹ وابستگی اور لگن کی علامت ہیں۔ ان کا بہادر دل، آدھی رات کے آسمان میں ایک تنہا ستارے کی طرح، تاریک ترین دور میں ہمارے راستے کی رہنمائی کرتا ہے، اپنے نظریات کی چمک سے راستے کو روشن کرتا ہے۔

جیسے ہی وہ اس دنیا سے چلے گئے، ہمارے پاس بس ایک خالی کینوس رہ گیا ہے۔ ان کی قربانی، دکھ اور قربانی کی سمفنی، ہمارے دلوں کے ایوانوں میں ایک سوگوار راگ کی طرح گونجتی ہے، جو ہماری تاریخ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔

ہر گرتے ہوئے آنسو کے ساتھ، ہم اُس غیر متزلزل روح کو یاد کرتے ہیں جو اُن کی رگوں میں دوڑتی تھی، شدید اور غیر متزلزل، اُس بے لگام دریا کی طرح جو پتھریلے پہاڑوں کو کاٹ کر اپنا راستہ بناتی ہے۔ وہ ہمارے قوم کے خوابوں کے محافظ، ظلم اور جبر کے خلاف ایک محافظ کے طور پر کھڑے تھے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک تنہا مینارہ جو بحری جہازوں کو بدمست سمندر سے بچاتا ہے۔

اب، جب ہم الوداع کرتے ہیں، ہمارے دل غم میں ڈوبے ہوئے ہیں، گلاب کے ایک باغ کی طرح، جہاں ہر پنکھڑی اپنے رہنما سورج کے کھو جانے پر ماتم کرتی ہے۔ اگرچہ وہ ہماری فانی کنڈلی سے کوچ کرگئے، لیکن ان کی میراث ہمیشہ باقی رہے گی، وقت کی ہواؤں میں لچک کا جھنڈا بلند رہے گا۔

اس پُر خلوص جدائی میں ہمیں اس بات میں تسلی ملتی ہے کہ ان کی قربانی، فینکس کی طرح، پیروی کرنے والوں کے دلوں میں امید کے شعلے بھڑکا دے گی۔ ہمارے قومی شہید، اپنی آخری الوداعی میں، ہماری اجتماعی یاد کے آسمان میں ایک برج بن گئے، ہمیشہ کے لیئے ہمیں ان آدرشوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، جن کے لیے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔