مزاحمت میگزین: مختصر جائزه ۔ منیر بلوچ

467

مزاحمت میگزین: مختصر جائزه

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

سندھ کی متحرک آزادی پسند مسلح تنظیم سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی سندھ کی آزادی کے لئے مسلح محاذ پر جدوجهد دسمبر 2010 سے جاری هے. اس تیره سال کے مختصر عرصے میں مشکلات کے باوجود سید اصغر شاه کی سربراهی میں سندھو دیش روولیوشنری آرمی سندھ کے عوام کی امنگوں کی ترجمان بن کر آزادی کے مشکل و کھٹن موقف کے ساتھ سامنے آئی ہیں.

سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی مسلح جدوجهد اور ان کی کاروائیوں کی رپورٹ ہماری نظروں کے سامنے مختلف اوقات میں گزرتی ہیں لیکن آج سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی جانب سے ان کی پہلی میگزین مزاحمت کی اشاعت کا سن کر بهت خوشی هوئی که هماری قیادت جنگی محاذ کے ساتھ ساتھ اپنی زبان و ثقافت‌ کی بقاء کے لئے مزاحمتی علمی مواد اپنے ممبران کو فراهم کرکے انهیں اپنی زمین، اپنی ثقافت اور اپنی مزاحمت کو زنده رهنے کا درس دے رهی هے جو نهایت هی اهمیت کا حامل هے.

کهتے هیں که انسان کو زنده رهنے کے لئے آگ، مٹی، هوا اور پانی کی ضرورت هوتی هے اس سے کوئی بھی باشعور یا لاشعور فرد انکار نهیں کرسکتا. اسی طرح سیاست بھی انسانی زندگی کے لئے ضروری عمل هے لیکن کونسی سیاست ؟ سیاست وه جو آپ کو زندگی گزارنا نهیں زندگی جینا سکھائے اور وه سیاست هی جینے کا هنر سکھاتی هے جس میں مزاحمت کا عنصر شامل هو۔ اگر کسی سیاست میں مزاحمت نهیں تو وه صرف زندگی گزارنا سکھاتی هے اور زندگی تو غلام بھی گزار رهے هیں، پاگل بھی گزار رهے هیں لیکن همیں تو زنده رهنا هے اور زنده رهنا مزاحمت کے بغیر ناممکن هے.

سندھ کی مزاحمت صدیوں کی تاریخ پر محیط هے، راجا داهر سے لے کر هوش محمد شیدی، سندھ کے فکری رھبرسائیں جی ایم سید سے لیکر سائیں اصغر شاه تک کا سفر سندھ کی مزاحمت کو صدیوں کی مزاحمت سے جوڑتی هے اور یه مزاحمت صرف مسلح محاذ پر نهیں بلکه سیاسی، ادبی، علمی و ثقافتی محاذوں پر جاری هے. موجودہ دور میں سندھ کے انقلاب کے رهبر سائیں جی ایم سید متعدد کتابوں کے خالق هیں جنهوں نے اپنی تصانیف سے سندھو دیش کی آزادی و مزاحمت کو واضح طور پر بیان کیا هے کیونکه وه جانتے تھے که مسلح محاذ کی کامیابی مزاحمتی تربیت کے بغیر نامکمل هوگی اور آج سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی میگزین سائیں جی ایم سید کے فلسفے پر کار بند ره کر مسلح محاذ کو ایک علمی و مزاحمتی روح فراهم کررهی هے جو ایک نیک شگون هے.
مزاحمت میگزین پر مختصر نظر:

سندھو دیش روولیوشنری آرمی کے ترجمان مزاحمت کی پهلی اشاعت 23 ستمبر 2023 کو هوئی جو مزاحمت پبلیکشن کی جانب سے شائع هوئی. میگزین کل 81 صفحات پر مشتمل هے.

میگزین کے فرنٹ پیج کے اوپری حصے میں سائیں جی ایم سید اور نچلے حصے میں شهید جنرل استاد اسلم‌ بلوچ، بلوچستان کی مزاحمت کی علامت ڈاکٹر الله نزر و بشیر زیب اور سندھ کے مزاحمتی قائد سائیں اصغر شاه کی تصویریں هیں. جبکه میگزین کے صفحه نمبر 2 کے ایک طرف فهرست مرتب کی گئی هے جبکه دوسری طرف ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبران کے نام اور ویب سائٹ درج هے جبکه صفحه نمبر 3 پر اداریه تحریر کیا گیا هے. کتاب کے مکمل مضامین سندھی زبان میں هے صرف سائیں اصغر شاه کا انٹرویو اردو و سندھی زبان میں شامل کیا گیا هے.

صفحه نمبر 4 سے لیکر صفحه نمبر 17 تک سندھو دیش روولیوشنری آرمی کے چیف کمانڈر سائیں اصغر شاه کا انٹرویو سندھی زبان میں شامل کیا گیا هے جبکه میگزین کے صفحه نمبر 18 سے لیکر صفحه نمبر 31 تک اس انٹرویو کو قارئین کے لئے اردو زبان میں ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا هے. صفحه نمبر 32 سے 37 تک کامریڈ حیدر بخش نے “تاریخ میں مزاحمت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں نهیں” کے نام سے مضمون تحریر کیا هے. سندھ کی موجوده سیاسی صورتحال کے تجزئیے کو صفحه نمبر 38 سے 42 میں شامل کیا گیا هے اور سندھ کی موجوده قومی تحریک کے تجزئیے کو صفحه 43 سے صفحه نمبر 48 تک جگه دی گئی هے.صفحه نمبر 49 سے 55 تک سندھ کے قومی هیرو اور لٹیرے محمد بن قاسم کی یلغار کا مقابله کرتے هوئے شهادت کا درجه پانے والے شهید اول راجه داهر پر بھی ایک مضمون شامل هے جسے پاکستانی نصاب میں همارے سامنے همیشه بطور ولن پیش کیا گیا هے جبکه صفحه نمبر 56 سے 65 تک ویتنام کی مسلح تنظیم نیشنل لبریشن فرنٹ کا مختصر تعارف و کاروائیاں سندھی زبان میں ترجمه کرکے میگزین کا حصه بنایا گیا هے. جبکه آخری مضمون سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی مسلح کاروائیوں کی رپورٹ کو اخباری خاکوں کے ساتھ  شامل کیا گیا هے جو صفحہ نمبر 66 سے صفحه نمبر 80 میں موجود هے. جبکه میگزین کے بیک پیج پر سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی مسلح کاروائیوں کو تصویری شکل میں پیش کیا گیا هے. میگزین میں شامل سائیں اصغر شاه کا مفصل انٹرویو پڑھا اس سے قبل میں نے کبھی سندھ کی مزاحمت کے متعلق کسی کتاب یا کالم کا مطالعه نهیں کیا هاں بلوچ مزاحمت اور مزاحمتی شخصیات کے بارے میں پڑھا تھا لیکن یه انٹرویو پڑھ کر علم هوا که سائیں جی ایم سید کے بعد سندھ کو ایک ایسا مزاحمتی لیڈر نصیب هوا هے جس نے زندانوں کی سختیوں کےباوجود عدالت کے سامنے پیش هو کر تحریری شکل میں سندھ کی آزادی کا اقرار اور پاکستان سے انکار کا بیان دیا اور پھانسی کی سزا کی استدعا کی اور رهائی کے بعد سندھی عوام کو حقیقی مزاحمت کا راسته سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی شکل میں دکھایا۔ سندھ کی سیاسی صورتحال‌ هو یا خطے اور عالمی سیاست پر ان کا تجزیه ظاهر کرتا هے که سندھ کی تحریک ماهر و مخلص و باصلاحیت شخصیات کے هاتھوں میں هے جو اپنی کشتی کو بھنور سے نکال کر کنارے لگانے کا هنر جانتے هیں. ایک مزاحمتی قائد بهادر و باصلاحیت هونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب میں بھی کمال‌هونے کے علاوه عالمی سیاست کو سمجھ سکتا هو۔ سائیں اصغر شاه کے انٹرویو میں یه بات عیاں هوتی هے که وه سیاسی شعور و سیاسی حالات سے باعلم رهنما هے.

میگزین کا دوسرا مضمون کامریڈ حیدر بخش کا ” تاریخ میں مزاحمت کے سوا کوئی اور راسته نهیں” کے عنوان سے هے جس میں وه تشدد اور عدم تشدد پر بحث کرکے اس نتیجے پر پهنچتے هیں که مظلوموں کے پاس ظالم کا جواب دینے کے لئے مسلح جدوجهد کے علاوه اور کوئی راسته نهیں هے اور وه اپنے مضمون میں هندوهستان کی تحریک آزادی کے عدم تشدد و تشدد کے پهلوؤں کو بطور مثال پیش کرتے هیں.
سندھ کی موجوده‌ سیاسی صورتحال، سندھ کی موجوده قومی تحریک کا تجزیه، ویتنام کی مسلح جدوجهد کرنے والی تنظیم نیشنل لبریشن فرنٹ اور سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی مسلح کاروائیاں بھی اس میگزین کا حصه هے.

جبکه مطالعه پاکستان و معاشرتی علوم کی کتابوں میں ولن بننے والے راجه داهر درحقیقت سندھ کے قومی هیرو اور سندھ کے شهید اول هے جس نے عرب سامراج کے دلال محمد بن قاسم کی بربریت کو چیلنج کرتے هوئے مزاحمت کا راسته اپنا کر شهادت کا عظیم مرتبه حاصل کیا.

حروف آخر.
میگزین مزاحمت صرف ایک میگزین کا نام نهیں بلکه سندھ کی آواز هے۔ یه ان شهیدوں کے بندوق کی گولی کی آواز هے جسے مزاحمتی ادب میں پرو کر تیار کیا گیا هے۔ یه ان شهیدوں کے خون کی بوند هے جس کو بها کر انهوں نے سندھی عوام کو جینے کا هنر سکھایا هے. یه میگزین سائیں جی ایم سید کے فکر و فلسفے پر کاربند سیاسی مزاحمت کا روپ هے جس کو پڑھنا نه صرف سندھی عوام کے لئے ضروری هے بلکه هر اس مزاحمت کار کو اس کا مطالعه کرنا چاهئیے جو سندھ کی تاریخ اور مزاحمت سے نا واقف هے.

یه عام میگزین نهیں بلکه شهیدوں کا خون کے خون کی بوند سے تیار کیا گیا ادب هے اس کو پڑھنا اور سمجھنا اور عمل کرنا شهیدوں کا راسته هے۔ جسے هم کبھی فراموش نه کرنے کا عهد کریں. یه ریاستی زندانوں میں قید همارے سیاسی و جنگی قیدیوں کی چیخیں هیں جو تشدد کے باوجود اپنے مقصد سے پیچھے هٹنے کو تیار نهیں بلکه ایک محکم و سیسه پلائی دیوار کی طرح ریاستی سازشوں کو ناکام بنارهے هیں۔

آخر میں سندھو دیش روولیوشنری آرمی کی قیادت و کارکنان مبارکباد کے مستحق هیں جنهوں نے بهترین عرق ریزی کرکے مختصر وقت میں نه صرف بهترین مطالعے کا سامان فراهم کیا بلکه مزاحمتی جهد کاروں کو سندھ کی مزاحمت کے بارے میں بهترین تحفه پیش کیا.

مشوره یه دوں گا که اگلی اشاعت سندھی کے علاوه اردو اور بلوچی زبان میں بھی کی جائے تاکه خطے کے دیگر مظلوم اقوام کو اپنے همسایه ملک سندھ کی تاریخ، ثقافت، سیاست، مزاحمت و مزاحمتی شخصیات کے متعلق دیگر معلومات دستیاب هوسکے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔