بلوچستان میں اظہار رائے کی سزا جبری گمشدگی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

61

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ کا بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5175 روز جاری رہا۔

اس موقع پر محمد حسن مینگل ایڈوکیٹ سپریم کورٹ، محمد امین مگسی ایڈوکیٹ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اظہار رائے پابندی بدستور عائد ہے اور بولنے والوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ نام نہاد سی ٹی ڈی، ایف سی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور ڈیتھ اسکوارڈ کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے کی حکمت عملیوں کے سامنے بلوچ قومی تحریک کی عوامی مقبولیت اور عالمی سطح پر تحریک سے ہمدردی پاکستان پر تنقیدوں سے بلوچستان میں پاکستانی حکمرانوں اور گماشتوں کے لئے زمین تنگ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اب پاکستان اپنی پہلی سے جاری حربوں کو تنقید کا سامنا ہونے کے باوجود اور پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کے بلوچ قوم کے ساتھ جعلی ہمدردیوں اور پاکستان کی بقا کے لئے بلوچستان میں حکمت عملیاں تبدیل کرنے کے مطالبوں کے باوجود آپنے ناکام حربوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ پہلے سے جاری گمشدگیوں میں روز بروز شدد لائی جا رہی ہے آئے روز بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے جبکہ ڈیتھ اسکواڈ شدت کے ساتھ بلوچوں کو ٹارگٹ کرنے میں مصروف ہیں جبکہ بلوچستان بھر میں جرائم پیشہ کاروائیوں کے ذریعے ایک انتشار کی صورت پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ایف سی بلوچ آبادیوں پر سرچ آپریشن اور جبری لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی اگرچہ روز بروز شدید تر ہوتی جارہی ہے اور ان میں مزید درندگی آتی جا رہی ہے لیکن بلوچ قومی جدجہد کے تسلسل اور بلوچ عوام کی خواہش لاپتہ افراد کی بازیابی کے مقصد پر مستحکم وابستگی اور شہیدوں کی جدجہد اور قربانیوں کو اپنا نصب العین بنا لینے سے پاکستانی ادارے ان کے گماشتے اور خفیہ اداروں کی حقیقت بلوچ قوم کے سامنے واضح ہو چکی ہے ، پاکستان کی جانب سے کوئی بھی حکمت عملی اور جبر بلوچ قوم کی تاریخی جدجہد سے دور نہیں کر سکتا ہے۔