ایک نیرنگ زمانہ شاعر – برزکوہی

691

ایک نیرنگ زمانہ شاعر

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

دانشور اکثر انقلابی فکر کے معمار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ ان نظریات کو تیار اور بیان کرتے ہیں جو انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکی انقلاب کے دوران، تھامس پین جیسے مفکرین نے اپنے پمفلٹ “کامن سینس” کے ساتھ آزادی اور خود مختاری کے اصولوں پر مبنی برطانوی راج سے آزادی کی دلیل دے کر انقلاب کے لیے ایک زبردست فکری بنیاد فراہم کی۔

دانشور اور شاعر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے پیچیدہ خیالات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں جو عام آبادی کے ساتھ گونجتا ہو۔ تحریروں، تقریروں اور شاعری کے ذریعے وہ انقلابی اصولوں کو آسان اور مقبول بنا سکتے ہیں۔ اس کی مثال چلی کے انقلاب میں پابلو نیرودا جیسے شاعروں نے دی ہے، جنہوں نے اپنی شاعری کو لوگوں کی امنگوں کے اظہار اور جابرانہ حکومت پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کیا۔

دانشور اور شاعر لوگوں کے شعور کو بیدار کر سکتے ہیں، انہیں ان کی حقوق اور تبدیلی کی ضرورت سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، فرانٹز فینن نے نوآبادیات پر نوآبادیات کے نفسیاتی اثرات کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا اور لوگوں کے شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

شاعری، ادب اور آرٹ لوگوں کو انقلابی مقصد میں شامل ہونے کے لیے تحریک دینے اور ترغیب دینے کے لیے طاقتور ہتھیار ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاعر لینگسٹن ہیوز نے اپنی شاعری میں شہری حقوق کی تحریک کی روح کو قید کرلیا، افریقی امریکیوں کو اپنے حقوق اور وقار کے لیے لڑنے کی ترغیب دی۔

دانشور اور شاعر اکثر انقلابات کے دوران اخلاقی اتھارٹی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اور تقریریں اخلاقی اور انسانی اقدار کی اپیل کرکے حمایت کو بڑھا سکتی ہیں۔ جیسے گاندھی نے عدم تشدد کے اپنے فلسفے کے ساتھ ہندوستانی تحریک آزادی کے لیے ایک اخلاقی ڈھانچہ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

انقلابی جدوجہد کو دستاویزی شکل دینے میں شاعر اور دانشور بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں اور فن تاریخی ریکارڈ کے طور پر کام کر تے ہیں، واقعات اور ان افراد کی یاد کو محفوظ رکھتے ہیں جنہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے انقلاب کو تشکیل دیا۔

دانشور اور شاعر انقلابی تحریک کے اندر مختلف دھڑوں کو متحد کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ مشترکہ نظریات اور اقدار کو فروغ دے کر، وہ تقسیم کو ختم کر سکتے ہیں اور متنوع گروہوں کے درمیان تعاون کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔

دانشور اور شاعر اکثر نگہبان کے طور پر کام کرتے ہیں، انقلابی رہنماؤں کے اعمال کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور انہیں انقلاب کے اصولوں اور وعدوں کا جوابدہ ٹھہراتے ہیں۔ اس سے انقلاب کو اس کے اصل اہداف سے ہٹنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

دانشور اور شاعر بھی انقلابی مقصد کے لیے بین الاقوامی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں ہم خیال افراد اور تنظیموں تک پہنچنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔

اور ہمارا ابا قاضی یہ سب کچھ تھا، وہ سراپا ایک انقلابی شاعر و دانشور ہونے کا عملی نمونہ تھا۔ وہ اپنے مخصوص دو ٹوک زبان، اپنے غیرمعمولی کردار اور بلند پایہ افکار سے اپنے ہی مخصوص مزاج و طریق زندگی سے بلوچ قومی تحریک اور انقلاب زدہ بلوچ معاشرے میں داشور کا کردار ادا کرتے رہے۔

وہ اپنے کردار میں بلوچ سماج میں اتنے ہی معتبر تھے، جتنا فرانسسی سماج میں والٹیئر کی حیثیت تھی- وہ والٹیئر، جو روشن خیالی کی ایک اہم شخصیت تھے، والٹیئر کے کاموں نے استدلال، رواداری اور آزادی اظہار کی حمایت کی۔ ان کے خیالات نے فرانسیسی انقلاب کو متاثر کیا، مساوات اور بادشاہت کے خاتمے کے لیے متاثر کن مطالبات پیش کیں۔ قاضی کے افکار نے بلوچ سماج میں وہی کردار کیا۔

وہ وکٹر ہیوگو کے قامت کے ادیب تھے، وہ وکٹر ہیوگو جو اپنے ناول “لے مزاربل” کے لیے جانا جاتا ہے، ہیوگو نے اپنی ادبی صلاحیتوں کو سماجی ناانصافی اور طاقت کے غلط استعمال پر تنقید کے لیے استعمال کیا۔ اس کے کام نے فرانس میں غریبوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی اور سماجی اصلاح کی تحریکوں میں حصہ لیا۔

روسی شاعر اور مصنف، پشکن نے اپنی شاعری اور ڈراموں کو جس طرح سماجی تبدیلی کی وکالت کرنے اور سامراج کی آمرانہ حکومت پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کیا۔ وہی کردار ابا قاضی بلوچ سماج میں مرتے دم تک ادا کرتے رہے۔

ابا قاضی نے روسی شاعر اخماتوا کی شاعری کی ہم پلہ شاعری کی، جس نے جنگ اور سیاسی ہلچل کے وقت روسی عوام کے مصائب اور لچک کو بیان کیا۔ اس کی شاعری سوویت روس میں جبر کے خلاف ایک طاقتور آواز بن گئی۔

وہ کوئی نادان و مخبوط نہیں تھا، اور نا ہی وہ بے ہودہ یا احمق تھا، وہ تو بلوچ سماج کا آئینہ تھا۔ اسکا زند و کرد بلوچ چاہگرد کا حقیقی عکس تھا۔ قاضی جس سماج، جس عہد، اور جن لوگوں میں پیدا ہوا اور جی رہا تھا، وہ اپنے عہد کا گواہ بن کر، لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہوئے، موت کی آغوش میں چل کر تاابد زندہ ہوگئے۔

وہ قاضی تھا، جو علم کو اپنے زہن و دل اور اپنے روح میں جذب کرکے، اسے خوبصورت الفاظ میں پرو کر شاعری کی صورت ہمارے سامنے رکھتا۔ وہ جیسا کلام ہوتے، جو لکھتے، ان پر سب سے پہلے خود عمل کرتے تھے، اسی لیئے وہ تمام شاعروں و ادیبوں سے ممتاز ہوگئے۔ قاضی نے اسی اربل و زیست میں ہی وہ مقام حاصل کرلیا، جس تک بہت کم انسان برسر حیات پہنچ پاتے۔

مجھے اپنے عہد کے شاعر و ادیبوں میں اب تک قاضی کے پائے کا کوئی شخص نہیں ملا، قاضی عشق اور مزاحمت کا ایک ایسا ملاپ تھا، جسے بنایا نہیں جاسکتا، جو محض وقت کی کوکھ سے صدیوں میں ہی جنم لے سکتے ہیں۔

غلامی کیخلاف مزاحمت، فرسودہ سماج سے بغاوت، مذہبی انتہاء پسندی سے تمرد، حرس و لالچ اور خوف سے بلوہ، اور سب سے بڑھ کر اپنے نظریہ و فکر کے سامنے مصلحت پسندی کے خلاف سرتابی ہی قاضی بناتے ہیں۔

ہم کتابوں میں غالب و جالب، میر و سارتر، مارکیز و شیکسپیر،
ہومر و سقراط کے تلاش میں مگن رہتے ہیں اور مطالعہ کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن قاضی ہمارے بھیتر تھا، ہمارے قلب میں، ہم بن کر زندہ تھا۔ لیکن ہمارے شعور و علم کی سطح اس نہج تک نہیں تھا کہ ہم قاضی کو سمجھ سکتے۔ قاضی بھی مسکراتے اور ہنستے ہوئے، موت کی آغوش میں جاتے جاتے، ضرور یہ سوچا ہوگا کہ میں اپنے وقت سے پہلے ہی پیدا ہوگیا، قاضی، استمرار کا انسان تھا، وہ مدام کی کوکھ سے جنا تھا۔ اور قاضی کو درست معنوں میں فقط مستقبل کے انسان ہی شاید پوری طرح سمجھ سکیں۔ وہ تو ہمارے دور سے بہت آگے کا تھا، اس لیئے شاید ہم سمجھ کے اس نہج تک نہیں پہنچ پائے۔ لیکن وہ جاتے جاتے مستقبل کی پیشنگوئیوں کی ایک لکیر کھینچ کر چلے گئے، وہ اپنی شاعری سے وہ تابندہ ڈنڈیر بنا گئے اور وہ سلسلہ مستقیم مزاحمت ہے۔

جس سچائی میں شعورہو، علم و عمل ہو، ثابت قدمی ہو، مستقل مزاجی اور سب سے بڑھ کر ادراک ہو اور پھر اس سچائی کو خود عملا اپنانا، جذب کرکے، اپنے روح اور اپنے کردار میں لپیٹنا، جس سچائی کا دعویٰ کرتے ہو، اسی سچائی کی خود علامت بن جانا، پھر بلا خوف، بلا ٹوک، خود غرضی اور لالچ سے پاک دلیرانہ اور واضح انداز میں سچ بولنے، سچ لکھنے کی جسارت کرنا، وہ بھی ایک برس نہیں بلکہ چار دہائیوں تک سچ کو ست و راست ثابت کرنے کی مسلسل جہد تا لحد جاری رکھنا، قاضی کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے؟

انقلابوں میں، قومی جنگوں میں، جنگی و انقلابی ادیبوں اور شاعروں کے کلیدی کردار سے انکار خود انقلابی و قومی جنگ کی مکمل نفی ہے۔ جنگ کی آکسیجن قومی و مزاحمتی شاعری ہے اور قومی و مزاحمتی شاعروں کا آکسیجن مزاحمت ہے۔ ایک قومی جنگول کے کردار کی خوبصورتی اور کشش شاعر کی قلم میں پیوستہ ہوتا ہے اور ایک مزاحمتی شاعر کی کردار اور پہچان کی دلکش و پرکشش علامت قومی شورہ پشت کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی ہوتی ہے۔

آج قاضی نے خود ثابت کردیا کہ تاریخ میں قاضی معمولی یاد نہیں ہوگا۔ دو دہائیوں سے جاری قومی آزادی کی جنگ میں اگر کوئی قاضی کے کلیدی کردار سے انکار کرتا ہے، تو وہ پوری جنگ سے انکاری ہے۔ میں آج بھی دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب تک قاضی زندہ تھا، میرا ذاتی موقف یہی تھا کہ ہم ابھی تک قاضی کو مکمل سمجھ نہ سکے اور انہیں انکا کماحقہ حیثیت نہیں بخشا اور آج بھی مجھے خدشہ ہے کہ ہم کہیں حقیقی فکر قاضی کو پس پشت ڈال کر بس اسے ایک مردہ علامت نا بنالیں۔

قاضی کی پہچان، اور قاضی کو انکا کماحقہ حیثیت، اتہاس اور آنے والی نسل دینگے، قاضی اب ہمارےنہیں تاریخ و تذکروں کے حوالے ہے۔ قاضی مادر وطن کی مٹی میں ہی نہیں بلکہ ساکھا کے صفحوں کی آغوش میں لیٹا ہوا ہے۔

قاضی زندہ نہیں توکیا؟ قاضی کی بہادری، قاضی کی مخلصی، قاضی کی بے غرضی، قاضی کی ہمت و جرت، سب سے بڑھ کر قاضی کا فلسفہ و افکار اور نظریات زندہ ہیں۔ قاضی سب کے لیئے، خاص طور پر بلوچ شعراء اور ادباء کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ اگر بلوچ شعراء اور ادیب واقعی علمی و شعوری اور ادراک کی حساسیت کے ساتھ تاریخ میں غیر معمولی کردار ادا کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں بلا واسطہ یا بالواسطہ شامل ہونا پڑیگا، بصورت دیگر قوموں میں شاعر و ادیب لاکھوں آتے ہیں، لیکن قاضی بس ایک ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔