نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (نواں حصہ) ۔ عمران بلوچ

171

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
(نواں حصہ)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہو مقصدیت کے بجائے بات ضرورت اور پیداگیریت کی ہو تو پذیرائی کا ملنا نا ممکن ہو جاتا ہے ، یہاں بھی معاملہ اسی طرح تھا لہذا ان حضرات کو کہیں سے بھی کوئی پذیرائی نہ ملی، بلوچ قوم بلخصوص نوجوانوں نے جو جنگ کی، قحط کی ، ظلم و جبر کی پیداوار ہیں نے انھیں یکسر مسترد کر دیا، ان سب کی سیاسی اپروچ آج کے بلوچستان سے یکسر مختلف ہے یہ سب آج کے بلوچستان کو ثور انقلاب، سرد جنگ، اور اسی کی دہائی یا نوے کی دہائی کا بلوچستان سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ سارے اس دور سے نکل نہیں پارے، مصلیحت پسندی بھی انسان کو نہ صرف کھا جاتی ہے بلکہ سیاسی تاریخ کے تمام اوراق سے نکال باہر کرتی ہے۔

بلوچ قوم بلخصوص نوجوانوں کی اپروچ اور نفسیات سمیت وقت و حالات کی سیاسی ضروریات سےہاری لوگ نہیں سمجھ پارہے کہ آج بلوچ کی مجموعی سوچ ان سے بہت آگے اور کافی مختلف ہے۔

آج کا بلوچ نوجوان باقاعدہ جنگ کا پیداوار ہونے کیساتھ ساتھ وسیع تر مطالعہ رکھتا ہے اس بات کو یہ ریٹائرڈ کیوں بھول جاتے ہیں؟

یہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا قبلہ تو اسمبلی ہو سول سیکٹریٹ ہو اس کے باوجود قوم خاص کر نوجوان ان کے تمام کرتوتوں کو بھول کر نظر انداز کریں ، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ بقول سردار عطاءاللہ خان مرحوم کے ، انھوں نے خضدار پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس سے اپنی خطاب کے دوران بلوچ نوجوانوں خاصکر بی ایس او کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا بلوچ نوجوان اللہ نذر بنے نہ کہ خدا نظر، درحقیقت آج یہ سارے خدا نظر بن چکے ہیں، اسی وجہ سے ان کی تمام میٹنگز اور کوئٹہ پریس کلب میں ہونے والے تمام پروگرامز کو بلوچ قوم نے مکمل طور پر مسترد کردیا تھا ان پروگراموں میں اسٹیج پر بیٹھے لوگ حال میں موجود افراد سے زیادہ تھے، حالات و واقعات چاہے کچھ بھی ہوں ان کا نمایاں ہونے اسٹیج پر بیٹھنے تقریریں کرنے کا شوق کبھی بھی ختم نہیں ہوگا، ان سے یہ بیماری آج تک نہیں نکلی ناہی ان کو حالات کے ادراک کا پتا ہے کہ آج کا بلوچستان ایک عمل سے گزر رہا ہے اسی لئے پہلے کردار کو دیکھتے ہیں جانچتے اور پرکھتے ہیں پھر بھروسہ کرتے ہیں تو ایسا کیسے ہوگا کہ لوگ کہور اور یاسین کی لڑائی کو بھول جائیں جس کی بدولت بی ایس او ایسا تقسیم ہوا کہ آج تک یکجاہ نہیں ہو پارہا ہے اس جنگ کی بتن سے فدا کی لاش نکلی، بی ایس او پارلیمانی پارٹیوں کا ایسا بغل بچہ بنا کہ آج تک سنبھل نہیں پا رہا ، نوے کی دہائی کو لوگ کیسے بھولے جب بی ایس او چندہ مشین بنا پارلیمنٹ سمیت تمام اخلاقی و سماجی برائیوں سے واقف ہوا ، تعلیمی اداروں سے نکل کر ہوٹلوں تک پہنچا اور اس طرح ہوتے ہوتے آج ڈیتھ اسکواڈ تک پہنچ کر سیاسی اخلاقیات شرم و حیا، اپنی وقار سب کچھ کھو چکا ہے۔

آج بلوچ قوم ایک ٹرانزیشنل دور سے گزر رہا ہے وقت کے اس دہرائے پر آکھڑا ہے کہ جس میں خود نمائی کے خالی خولی تقریروں کی جو سڑک، نالی اور بجلی سمیت ٹرانسفر پوسٹنگ پر معیط ہوں بلوچ قوم کب کا ایسی باتوں کو مسترد کرکے بہت آگے نکل چکا ہے۔

ایکس کیڈرز کا جب کوئٹہ میں دوسرا پروگرام ہوا تو اس دوران انھوں نے لوگوں سے ملنے کی کوشش کی پر ماسوائے این پی کے چند ایک عہدیداروں کے کوئی بھی ان سے نہ ملا اور نہ ہی کوئی پذیرائی دی گئی ان کے پاس قومی فکر و پروگرام ہوتا تو یہ لوگ قوم کا فیصلہ سمجھ جاتے پر ان کا مول و مراد زاتی و گروہی مفادات تھے تو ظاہر ہے مقصد مردہ بدن کو گھسیٹنا ہے۔جہاں انھوں نے ایکس کیڈرز کا اعلان کیا اور چند ایک میٹنگز کی ان میٹنگز کا موضوع بحث موجودہ بلوچ مزاحمتی تحریک بلخصوص مسلح جدوجہد و جہد کار رہے ہیں۔ارے نہیں بھائی نہیں بالکل بھی نہیں کہ انھوں نے تحریک کے بارے میں کچھ اچھا سوچا ہو کوئی نئی حکمت عملی بتائے ہو یا کوئی تعمیری تنقید کی ہو کچھ اچھا سوچا ہو ایسا کچھ بھی زیر بحث نہیں لائے بلکہ متفقہ طور پر سب نے ( چند افراد تھے) نے اور بلخصوص پانچ لوگوں نے جن میں چار سابق چیرمین اور ایک سابق وائس چیئرمین جو کہ ایک موجودہ پارٹی کے مرکزی عہدیدار بھی ہے سب نے مل کر کہا کہ موجودہ تحریک کی وجہ سے ہماری سیاست بالکل ختم ہو چکی ہے.اور ہم سب سیاسی اور جمہوری لوگ بالکل محدود ہو چکے ہیں،ویسے بھے موجودہ جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں ہے لہذا اسے ختم ہونا چاہیے مزید یہ کہ اسے ختم یا کمزور کرانے میں ہم جو کردار ادا کر سکتے ہیں وہ کریں، یہ ہے اولین کوئٹہ میٹنگ کی اندرونی باتیں جو ایسے سادہ لوگ جو بڑی امید یا نادانی کی وجہ سے وہاں گئے تھے یہ سن کر انھوں نے بعد کے اجلاسوں اور ہر طرح کے پروگراموں سے خود کو دور رکھنے میں آفیت جانی۔

اہمیت کاحامل نقطہ یہ ہے کہ آج کے بلوچستان میں ریاستی پالیسی یہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو ٹارگٹ کرنا ، ان کو جبری طور پر اٹھوانا، مقصدیت سے ہٹانا ، ڈرانا ، دھمکاکر خوف کا شکار بنانا، لاشیں پھینکنا، تعلیم سے دور رکھنا، تو کیا ان صاحبان کا مطلب بھی نوجوانوں کو ڈائیورٹ کرنا ہے؟

کہتے نہیں تھکتے جی جمہوری جدوجہد ، پاکستان میں جمہوریت آیا کب تھا جو مزید یہ اسے اپنا کندھا دینے نکلے ہیں، دشمن کی طاقت کو دشمن کے خلاف استعمال کرو کہتے کہتے اپنا سبق ہی بھول گئے۔

اسی طرح حب چوکی میں منشیات کے خلاف ایکس کیڈرز کے نام پر ایک ریلی نکالی گئی، بلی سو چوہے کھا کے حج کو چلی، جو خود منشیات کے عادی ہوں اس کے کاروبار کو برا نہ مانے ، ایسا کاروبار کرنے والے سے دوری نہ رکھے وہ کیسے منشیات کو ختم کرائینگے؟ اس معاملے میں تحقیق سے لیکر میڈیکل ٹیسٹ سب کچھ واضح کریگا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، پوچھو کہتے ہیں زاتی مسئلہ ہے اب زاتی مسلے اور سیاسی مسئلے میں فرق کو سب جانتے ہیں، سیاست بھی کرو سوال نہ اٹھے بی ایس او سے سوال اور تنقیدی نشست کیسے الگ ہو سکتے ہیں، یا جی بس ہم دوست ہیں ، ساتھی ہیں، حسین سے دوستی یزید کو بھی سلام، جمہوریت یا جمہوری لوگ ہیں، آرگنائزر اور چیئرمین کا فرق انیس سو ستسٹھ سے ڈھونڈ نہ پائے، کوئی دو کے بجائے تین سال چیئرمین بنے تو کوئی دو کے بجائے بارہ سال چیئرمین رہے تو مشرف، ضیاع، ایوب اور یحییٰ کے مارشل لا اور ان میں کیا فرق؟ اس دوران کہا پڑھ رہے تھے ؟ داخلہ کہاں تھا؟ سیلف گرومنگ کتنی کی؟ جس جمہوریت اور پارلیمنٹ کا یہ راگ الاپتے ہیں اس کی تعریف کیا ہے؟ ان کو اوپن پولیٹکس اور انڈر گراونڈ سیاست کا پتا نہیں یا منحرف ہو چکے ہیں؟ کالونیل دور میں مقبوضہ قوم کی پارلیمنٹ کہاں سے آیا؟ بارہ کو چلے ہیں تین سو ساٹھ سے برابر کرنے، پھر بی ایس او جیسے نظریاتی ادارے میں کب سے پارلیمنٹ، مسلم لیگ اور پی پی جیسی پارٹی کی گنجائش پیدا ہوگئی؟ ان کے پاس دلیل ایسےہیں کہ کل کو پی پی اور مسلم لیگ کے کردہ گناہوں ایٹمی دھماکہ اور تیرہ تر کے آپریشن قتل و غارت کا بھی دفاع کریں۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔