ایران اور عراق کرد عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے پر متفق

344

ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بغداد نے شمالی عراق کے خود مختار علاقے میں سرگرم جلاوطن ایرانی کرد گروپوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں دوسری جگہ منتقل کرنے سے اتفاق کیا ہے۔

ایران نے 28 اگست پیر کے روز کہا کہ کرد عسکریت پسند گروپوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں دوسری جگہ منتقل کرنے کے حوالے سے عراق اور اس کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔

تہران کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بغداد نے ستمبر کے وسط تک اس معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے، تو پھر وہ خود کارروائی کرے گا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ”ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق، عراقی حکومت نے 19 ستمبر تک عراق میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا عہد کیا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ مقررہ ”19 ستمبر کی آخری تاریخ میں کسی بھی صورت میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔ اس ڈیڈ لائن کے بعد بھی اگر عراق اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو ایرانی حکومت ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داری سنبھالے گی۔”

کنعانی نے کہا کہ بغداد نے ”(کرد عسکریت پسندوں) کو عراقی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ کیمپوں میں بھی منتقل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

تاہم عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے ان دعووں پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ اس نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایران چاہتا ہے کہ عراق میں کرد اپوزیشن گروپوں کو غیر مسلح کر دیا جائے اور وہ پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔

عراق میں کرد عسکریت پسندوں سے متعلق ایران کے خدشات کیا ہیں؟

شمالی عراق کے خود مختار علاقے میں ایران کے متعدد کرد دھڑوں کے زیر انتظام بہت سے کیمپ آباد ہیں۔ تہران ان کیمپوں کو ”دہشت گرد” گروپوں کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔

تہران نے عراق میں مقیم ایرانی کرد عسکریت پسندوں پر بدامنی کو ہوا دینے کا بھی الزام لگایا ہے، جو نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔

کردوں کی مجموعی تعداد تقریباً 35 ملین ہے اور روایتی طور پر وہ جنوب مشرقی ترکی، شمال مشرقی شام، شمالی عراق اور مغربی ایران میں آباد ہیں۔

رواں برس مارچ میں ایران اور عراق نے اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس کے اگلے ہی مہینے، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ ”عراق اور اس کی سرحدوں کی حفاظت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔”

ایران نے گزشتہ برسوں کے دوران شمالی عراق میں کئی دہائیوں سے جلاوطن کرد گروپوں پر متعدد حملے بھی کیے ہیں۔

جولائی کے وسط میں ہی عراق کی وزارت داخلہ نے عراقی کردستان علاقے میں حکام کے ساتھ مل کر ایرانی سرحد پر ایک بریگیڈ کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت عراقی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ بغداد نے نئی سرحدی چوکیوں کی تعمیر کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی رقم مختص کرنے کی بات بھی کہی تھی۔