ڈاکٹر غفور کی پی سی آر مشین ۔ بجار زہیر عیسیٰ زئی

159

ڈاکٹر غفور کی پی سی آر مشین
تحریر: بجار زہیر عیسیٰ زئی
دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹروں کے بلوچ سیاست اور ادب پر بےشمار احسانات ہیں۔ غرض وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہوں یا میڈکل ۔ پی ایچ ڈیز میں ڈاکٹر کہدہ بنڈل خان سے لیکر زائد داشتی تک آئیں ۔ لوگوں کو ایسے ایسے نایاب اور انہونی کارنامے ملیں گے کہ نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید بھی شرما جائیں ۔ اسی طرح اگر سیاسی ڈاکٹروں کی تاریخ و تعریف پر نظر دوڑائی جائے تو انکے کمالات اور کرامات سے بلوچ سیاست چمک رہی ہے۔ان میں ڈاکٹر حئی ،ڈاکٹر مالک ،ڈاکٹر یاسین ِڈاکٹر کہور خان اور ڈاکٹر مبارک سے لیکر’’ ڈاکٹر غفور کوٹک رودین ‘‘تک آئیں ان سب نے ایسے ایسے خدمات ِ گرانائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں کہ اگر یہ دامن نچوڑیں تو میکاولی اور کوٹلیہ چانکیہ بھی وضو کرنے پہنچ جائیں۔ان ڈاکٹر صاحبان نے بلوچ سیاسی تحریک اور بلوچ حقوق کے بغیر انھیستیزیاکے ایسے کامیاب آپریشن سرانجام دیئے ہیں کہ مسقبل قریب میں الگوراتم بھی انگشت بدنداں رہے۔فی الحال مستقبل قریب کوچھوڑ دیں اور ماضی بعید کو بھی کسی کھاتے میں لانے کی کوشش نہ کریں۔صرف کیچ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جو کردار’’ ڈاکٹر غفور کوٹک دار ‘‘نے ادا کیا صرف اس پر غور کریں تو بلوچ قوم کے مستقبل کی چار طبقیں روشن ہوجائیں جس پر بی این پی مینگل کے اکابرین بجا طور پر فخر کر سکتےہیں ۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے غم میں ’’ڈاکٹر غفور کوٹک دار ‘‘این پی،بی این پی مینگل،بی این پی عوامی،کاروان آسکانی،کاروان لالا رشیداور کاروان نیاز کیازئی کے اجتماع میں جو خطاب فرمایا اسکی ویڑیو کلپ اپنی بسیط ، بساط اور بستار میں زبان ِزدِعام ہے۔جس میں انھوں نے اپنی دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر بلمشافہ اور برملا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اب میں کوٹک پالنے کے ’’پیشے ‘‘کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہتا ہوں ‘‘ اور صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسی ایک ہی سانس میں یہ بھی اعلان کردیا کہ ’’ اب بی این پی بھی ’’کوٹک پالنے کے دھندے ‘‘کو ترک کر دے‘‘۔ جس پر پارٹی کااب تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے کہ آیا پارٹی’’ کوٹک دار ‘‘کے بات کی تائید کرتے ہوئے کیچ میں اس دھندے کو ترک کر دیں گے یا یہ اسی طرح جاری رکھیں گے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر کیچ میں پارٹی نے ڈاکٹر سے اختلاف کرتے ہوئے یہ دھندہ جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا تو’’ کوٹک دار ‘‘صاحب عنقریب اپنی راہیں پارٹی سے جدا کر دیں گے۔

جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کا مشورہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب دل بڑا کر کے اسی طرح اپنا کام بلوچ قوم کی وسیع مفاد میں پارٹی کے اندر پارٹی دوستوں کے ساتھ جاری وساری رکھیں ۔ان کا کہنا ہے کہ’’ کوٹک دار ‘‘کو اپنا وراثتی کام بالکل نہیں چھوڑنا چاہئیےکیونکہ ڈاکٹر صاحب کی بلوچستان میں شہرت اسی کام ومنصب کی وجہ ہی سے تو ہے۔ ان کے اس کام کامرتبہ عبدالستار ایدھی سے اس لیے بھی بلند و بالا ہے کہ ایدھی جگہ جگہ جھولے (گوانزگ) رکھتے تھے جبکہ ڈاکٹر غفور کوٹک دار اسلامی شریعت اور سنت کے مطابق اس نیک کام کو اس احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے ہیں کہ بمطابق حدیث دائیں ہاتھ کے کام کا دھڑک بائیں ہاتھ کو بھی لگنے نہیں دیا۔ اس لحاظ سے ڈاکٹروں کے بلوچ سیاست و ادب میں خدمات کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ڈاکٹر صاحب کے کچھ دوست سر پکڑ کے بیٹھ گئے ہیں کہ چابک دستی ۔۔۔،اور ایسی؟ ان کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس بلوچی ضرب المثل کی کایا کلپ کر دی ہے کہ ،’’ چک ءَ بُہ کش ءُ چکو ءَ رودین‘‘۔اس پہ ڈاکٹر صاحب کی سوچ،ذہانت اور بصیرت کو سینکڑوں سرخ سلام!انکے کچھ دوست اس پر حیران و پریشان ہیں کہ انھوں نے آج تک کیچ کے اندر کبھی کہیں ڈاکٹر کا گوانزگ(جھولہ ) دیکھا نہیں ہے تو ڈاکٹر ان کوٹکوں کو پالنے کے لیے کہاں کہاں سے مجتمع کرتے رہے ہیں ؟چونکہ کسی کے پاس مصدقہ تصدیقات موجود نہیں ہیں اس لیے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جھوٹ بولتے ہیں جس طرح وہ سیاست میں جھوٹ بول بول کر نام پیدا کر چکے ہیں بالکل وہ اسی طرح سماجی کام میں بھی جھوٹ کے سہارے نام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس نہ تو پہلے کوئی کوٹک تھا اور نہ ہی اب ہے ، یہ سب ان کا شوشہ ہے۔ ان کے پاس نہ تو پہلے کوئی اس قسم کی کوئی ایجنسی تھی اور نہ ہی اب کوئی لائسنس موجود ہے؟انکی کوٹکوں کی ایجنسی کا وہی حال ہے جو مملکت اللہ داد کے پاؤ پاؤ والے ایٹم بموں کا ہے ۔

بالکل اسی طرح ڈاکٹر صاحب اس طرح کے داعوے کر کے خود کو عبدالستار ایدھی کی طرح کیچ میں مشہور کروانا چاہتا ہے اس کے برعکس کچھ تجزیہ کاروں کا تجزیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سچ بول رہے ہیں وہ اس کام کےلائسنس یافتہ کاروباری رہے ہیں لیکن وہ اس کام میں اکیلے نہیں تھے بلکہ انکی باقاعدہ کوئی ٹرسٹ نما کمپنی رہی ہے جسکے کچھ ممبران دریائے کیچ کے گردونواح میں بودوباش رکھتے ہیں،وہ بھی طب ہی کے پیشے سےمنسلک ہیں وہ بھی بغیر انھیستیزیا کے سیاسی آپریشن کے ماہر مانے جاتے ہیں۔جبکہ اس کمپنی کے کچھ کھاتہ داروں کا تعلق دریائے نہنگ کے نواحی مشرقی علاقوں سے ہےلیکن وہ بیچارے نیم حکیم ہیں۔جنھوں نے کوٹک دار کے اصرار کے باوجود اپنے ووٹس بی این پی مینگل کو نہیں دیئے۔چونکہ کوٹک دار کمپنی لمیٹیڈ میں ڈاکٹر غفور’’ مجاز سرمایہ ‘‘ کے مالک ہیں اس لیے ان کے خیال میں ان کا حق ہے کہ کمپنی کے اندر یہ حکم صادر فرمائیں کہ کمپنی مزید کوٹک رودینی سے اجتناب برتتے ہوئے اب اس دھندے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرے۔ایک حد تک وہ حق بجانب بھی ہیں کہ کیونکہ وہ اس کمپنی کے قدیم ترین اور مجاز سرمایہ رکھنے والے ممبر ہیں ۔ بدقسمتی سے ان کو کبھی بھی کمپنی کے اندر اتنی حیثیت اور عزت نہیں دی گئی شاید اسی لیے انھوں نے اپنی حیثیت سے تجاوز کرتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کیا ہو؟مگر اس قضیے میں ان سے ایک غلطی سرزد ضرور ہوئی ہےکہ وہ پاکستانی قوانین کے تحت کمپنی سے دلبرداشتہ ہو کر صرف اپنا مجاز سرمایہ کمپنی سے نکال سکتے ہیں لیکن من مانی کرتے ہوئے وہ کمپنی کے دیگر ممبران کی مرضی کے برخلاف کمپنی کو باقاعدہ طور پر بند کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔اگر غفورِ کوٹک دار تھک چکے ہیں اور اب کاروبار کومزید آگے بڑھانے سے قاصر ہیں تو اس میں کمپنی یا ٹرسٹ کےدیگر ممبران کا کیا قصور ہے ؟ ممکن ہے کہ وہ اپنا کوٹک رودینی کا کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں اور تعزیراتِ پاکستان کے تحت ان کو یہ حق پہنچتا بھی ہے کہ وہ اپنا وراثتی کام جاری رکھیں اور یہ سب کچھ پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ایدھی ٹرسٹ کو لے لیں ،عبدالستار تو کب کے اس فانی دنیا سے سدھار گئے ہیں لیکن ان کا ٹرسٹ اب بھی آب و تاب کے ساتھ چل رہا ہے لہذا ڈاکٹر غفور صاحب کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ چونکہ وہ خود کوٹک رودینی سے تھک چکے ہیں اس لیے وہ کمپنی کو بند کرنے کا فرمان جاری کریں ،یہ عمل کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ (ممبران)ڈاکٹر غفور سے اس معاملے میں اتفاق رکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ اب چونکہ یہ کاروبار مزید نفع بخش نہیں رہا تو وہ اپنی مرضی سے اس کاروبار سے علٰحیدہ ہوکر کمپنی کو بند کر سکتے ہیں۔

لیکن شنید میں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے اس اعلان ِ دستبراری کے بعد کمپنی کے دیگر ممبران نہ صرف ڈاکٹر صاحب سے ناراض ہیں بلکہ انھوں باقاعدہ ڈاکٹر صاحب کو پیغام بھیج کر تنبیہ کیا ہے کہ کوٹک رودینی کے کاروبار سے دستبرداری ان کا ذاتی فیصلہ ہے ان کے اس فیصلے سے ٹرسٹ یا پارٹی کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے موقف پر برابر کھڑے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ ٹرسٹ کے اندر ’’مجاز سرمایہ ‘‘کے مالک ہیں اس لیے ان کے ہر فیصلے کی تائید کرنا ،تمام ممبران کا فرض منصبی ہےجبکہ دیگر ممبران کا موقف یہ ہے کہ اگر ان کا فیصلہ ہے کہ وہ موجودہ حالات میں کوٹک رودینی کے کاروبار کو منافع بخش نہیں سمجھتے اور اسے چھوڑنا چاہتے ہیں تو یہ انکی مرضی ہے مگر اس پر کیا کیا جائے کہ جب باہر سےپَلا ہوا کوئی ’’کوٹک ‘‘پارٹی کے اندر وارد ہو ، تو اس کو روکنے کا کیا فارمولا یا پالیسی موجود ہے؟ سنا ہے اس پر ڈاکٹر غفور صاحب نےبرجستگی سے جواب دیکر کمپنی اور پارٹی والوں (دونوں )کو لاجواب کر دیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان کے پاس 2010 سے ایک پی۔سی۔آر مشین موجود ہے جسکے ذریعے وہ پارٹی ممبرشپ طلب کرنے والوں کاڈی۔این۔اے ٹیسٹ کروائیں گے۔اس بات کو ثابت کرنے کے لیے انھوں ایک واقعیہ کا قصہ بھی سنایا ہےکہ چند سال پہلے ان کا بیٹا کیچ میں قانون نافذ کرنے والوں کی ایک چوکی پر اس الزام میں گرفتار ہوا تھا کہ ان کا بیٹا عمومی طور پر مکران میں اور خصوصی طور پر کیچ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہے بقول ڈاکٹر غفور (دروغ بہ گردنِ راوی)اسی اثنا میں ان کی گاڑی کی ڈیکی میں ہاتھ پاؤں باندھا ایک شخص بھی برآمد ہوا تھا۔ڈاکٹر غفور کے مطابق کیچ کے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ یہ اغوا برائے تاوان کی کوئی واردات تھی لیکن یہ کوئی ایسی واردات نہیں تھی بلکہ اس (ہاتھ پاؤں بندھے)شخص نے بی این پی کی ممبر شپ کے لیے درخواست دی تھی اور ڈاکٹر غفور کی ہدایت تھی کہ پہلے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔ بقول ِ ڈاکٹر :’’تو میرا بیٹا اس کو پی۔سی۔آر مشین (میرے گھر میں اس وقت بھی موجود ہے)کے ذریعے ٹیسٹ کے لیے لا رہے تھےکہ راستے میں انھیں بلوچ دشمن قوتوں نے گرفتار کر لیا اور مشہور کرلیا کہ غفور کا معصوم بیٹا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے‘‘
لیکن اس مجلس کی یہ بات بھی اب زبان زدِعام ہےکہ غفور کی اس بات پر کمپنی کے ایک حصص دار نے پارٹی کے حوالے سے ان سے یہ سوال کیا ہے کہ ’’ ڈاکٹر صاحب !آپ نے کبھی خود اپنا یا اپنے بچوں کا اسی پی۔سی۔آر مشین کے ذریعے کوئی ٹیسٹ کرائے ہیں؟‘‘ اس پر ڈاکٹر غفور صاحب کا جواب آیا تھا کہ ’’یہ ایک قومی راز ہے اور میں عمران خان نہیں ہوں کہ ایسے راز پبلک جلسوں میں آشکار کردوں ،جن جن کو اس بارے میں معلومات حاصل کرنے ہیں وہ گھر پر تشریف لا کر مجھ سے ذاتی اور انفرادی طور پر  رابطہ کرے‘‘


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔