سمرنی سمو – برزکوہی

1294

سمرنی سمو

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

قومی و اجتماعی جذبہ، شعور اور احساس سے مسلح، بہادری و ہمت اور مستقل مزاجی کی علامت وہ لڑکی، برزکوہی کی تحاریر و خیالات کو تسلسل کے ساتھ پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اپنی مادری زبان براہوئی میں ترجمہ کرتی، آج وہ سمو خود برزکوہی کے نوک قلم پر سجی ایک موضوع بن گئی ہے۔

ہستی سے موضوع بننے کا سفر، رومانویت کے چکا چوند پگڈنڈیوں پر اٹکلیاں کھاتی نہیں بڑھتی، بلکہ یہ کانٹوں کے سیج سے گذرتا وہ روش ہے، جہاں ہستی کی نفی اور عدم کو ثبات دینا پڑتا ہے۔ تبھی جسم موضوع بن جاتا ہے۔ موضوع تو ابد کا جنا اور ازل کے گود میں کھیلا لافانیت ہے۔ ھستی تو ھست کار یا نا ھست بہر صورت فانی ہے۔

انسانی تاریخ کی مشجرمیں، بعض ہستیاں وقت سے ماورا تاب ضیا کے ساتھ ہی چمکتی ہیں۔ اور وہ تابندگی ہماری سمو تھی، ایک نورِچشم ہستی جس کی قربانی نے ہماری زندگی کے تانوں بانوں پر انمٹ نقوش چھوڑ کر پر خواب ادھ کھلے آنکھوں کو چکا چوند کردیا۔ جب ہم اس کی سُدھ و ہردہ کو عزت دیتے ہیں، تو ہم اس کی زندگی کی خوبصورتی اور اس کی بے لوث عمل کی عظمت کا بھی جشن مناتے ہیں۔

اس کی زندگی ایک ہمدردی کی سمفنی تھی، جو محبت اور التفات کے دھاگوں سے بُنی ہوئی تھی۔ رات کے آسمان میں ایک چمکدار ستارے کی طرح، اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں کو منور کردیا، اور ایک ایسی گرمجوشی پیدا کی جس نے سرد ترین دلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر جذبات کے ملائم احساس سے معطر کرکے گرما دیا۔ اس کے اعمال الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں گونجتے تھے، کیونکہ اس نے خود کو دوسروں کی آزادی اور ابتہاج پھیلانے کے لیے وقف کردیا تھا۔

لیکن یہ اس کا آخری عمل تھا، ایک قربانی اتنی گہری اور عظیم، جس نے اسے لافانی کے دائرے تک پہنچا دیا۔ مصیبتوں کے باوجود، وہ نہیں ہاری؛ اس کے بجائے، وہ ایک اٹل بلوط کے درخت کی طرح اونچی کھڑی رہی، جس کی جڑیں اس کے نظریات میں پیوسط تھیں۔ جب فرض کا سور عدم سے گونجا، تو اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا، اور دوسروں کی ضروریات کو اپنی ذات سے بالاتر رکھ دیا۔

اس کی قربانی محض فرض کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ یہ اپنی قوم کی بقا و ہستی سے ان کی بے لوث انس و الفت کا اظہار تھی۔ اس نے اپنے آس پاس تکالیف دیکھیں اور اس وقت تک آرام نہیں کرسکی جب تک کہ اس نے اس کے خاتمے کے لیے اپنی پوری طاقت آزمائی نہیں کی۔ گویا اس کا دل کائنات کی نبض کے مطابق دھڑک رہا تھا، ہمدردی اور احساس کی تال سے گونج رہا تھا۔

اپنی قربانی کے ذریعے، وہ امید کی ایسی کرن بن گئی، جس نے ان گنت کھوئے ناخداوں کے لیے پیروی کرنے کا راستہ درخشندہ کردیا۔ اس کی بے لوثی تحریک کا ذریعہ بن گئی، جو ہمیں اپنی حدود سے اوپر اٹھنے اور انسانیت کے جوہر کو اپنانے کا چیلنج دیتی ہے۔ اسکی قربانی کا ورثہ ہمیں سکھاتا ہے کہ عظمت دولت یا طاقت جمع کرنے میں نہیں بلکہ بے لوث قربانی دینے اور مصیبت کے وقت ثابت قدم رہنے میں ہے۔

اس کی یاد نہ صرف ان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے جو اسے قریب سے جانتے تھے، بلکہ وہ یادیں انسانیت کے اجتماعی شعور میں بھی لوح حق کی طرح محفوظ رہیں گی۔ اس کی کہانی نسل در نسل سرگوشی کی جاتی رہے گی، کہ وہ ایک پیاری وراثت کی طرح گزری، ایک اچھی زندگی کی خوبصورتی اور عظیم قربانی کی گواہی بن گئی۔

جب ہم اسے یاد کرنے کے لیے جمع ہوں، تو آئیے اس کی زندگی اور اس کی قربانی کا جشن منائیں۔ آئیے ہم اس کی مہربانی، اس کی شفقت، اور اپنی قوم کی آزادی کے لیے اس کی غیر متزلزل لگن کی تقلید کرتے ہوئے اس کی عزت کریں۔ آئیے ہم اس مشعل کو آگے بڑھائیں جو اس نے روشن کی ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی بے لوثی کی میراث ہماری دنیا کے تاریک ترین گوشوں کو روشن کرتی رہے۔

وجود کی عظیم مشجر میں، کچھ دھاگے بھڑک سکتے ہیں، لیکن ایک شاندار قربانی کا نشان باقی رہتا ہے۔ اس کی یاد کو تاریخ کے نوادرات میں نقش کیا جائے، ایک یاد دہانی کے طور پر کہ موت کے عالم میں بھی، دوسروں کے لیے جینے والی زندگی کے اثرات وقت کے وسیع و عریض دائرے میں ستارے کی طرح چمکتے ہوئے ازل تک تابندہ رہ سکتے ہیں۔

چہرے پر دشمن کیلئے پرکالہ آفت اور دل میں سرزمین کیلئے مہر لیئے، تربت کی تپتی دھوپ میں کھڑی اور سینے پر بارود باندھے دشمن کی انتظارمیں کھڑی سمو، تربت کے لوگوں کو غور سے دیکھتے ہوئے، ضرور یہ سوچتی ہوگی، کہ اے میرے تربت کے بلوچوں! تمہیں معلوم نہیں کہ کچھ ہی لمحوں میں میں دشمن پر قہر بن کر اپنے آپ کو، اپنے وجود کو پاش پاش کرکے کیچ کے خاک اور ہواوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تحلیل کردوں گی۔ پھر صرف فضاوں میں ہی نہیں بلکہ فکر و تاریخ کے تسلسل میں بھی امر ہوجاوں گی۔ وہی فکر، وہی تاریخ آپ کو ہمیشہ یاد دلاتی رہیگی کہ اٹھو لڑو قربانی دو۔ ثابت کرو کہ بلوچ بزدل نہیں، ثابت کرو کہ بلوچ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔

توتک کی سرد اور ٹھنڈی ہواوں سے کیچ کے گرم لیوار تک پہنچتے پہنچتے وہ یہ بھی سوچتی ہوگی کہ عشق وطن کہاں کہاں کی خاک چھاننے پر مجبور کردیتا ہے۔

سمعیہ، آپ نے تو اپنے کردار و عمل اور قربانی سے کمفروٹ زون کی جو حقیقت اور معنی ہے وہ بھی بدل دیا۔ کمفروٹ زون میں تو بڑے بڑے ہستی ٹوٹ و بکھر جاتے ہیں، ان کی صلاحیت و ہمت، بہادری، مخلصی، ایمانداری ریت کی دیوار بن کر ملیامیٹ ہوجاتی ہیں۔ وہ خوف کے مارے جاگتے ہیں، وہ ہر روز موت سے نہیں تو خوف سے مرتے ہیں اور زندہ ہوکر مرے ہوئے ہوتے ہیں۔

مگر آپ نے سب کچھ برکشتہ ثابت کردیا، آپ نے استغاثے سے نہیں، مقطوع قلم سے نہیں، خطبوں سے نہیں، تقریر سے نہیں، تحریر و تمسک سے نہیں بلکہ اپنے خون و نژاد سے، اپنے بریدہ قالب خاکی سے یہ ثابت کردیا کہ جہاں بہادری و مخلصی، ایمانداری اور قوم و وطن کا نظریہ و فکر اور احساس ضعیف و معزور اور مفلوج نہ ہو، تو وہاں کمفرٹ زون کسی بھی جہدکار پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ سمعیہ نے اپنے خون اور اپنے جسد و کایا کو بارود کے ساتھ تحلیل کرکے جس سوچ کی تخلیق کی، وہ سوچ ہی قومی شعور، قومی فکر کی پختگی کو قومی سطح پر پروان چڑھاتے ہوئے مجموعی و قومی سطح پر جس بیم کو دشمن پر مسلط کرچکی ہے، وہ بلوچ عورتوں کے لیئے، قومی بیداری اور شعور کے لیے ایک انتہائی گہرا فلسفہ ہے۔ یہی فلسفہ سمو و فلسفہ شارل بلوچ قومی بیداری و بلوچ قومی شعور دشمن کی نیست و نابود کردے گی۔

انسانی تہذیبی ارتقا، قومی اوج و صعود ، یا فردی آزادی، سب تسلسل اور قربانی سے نتھی ہیں۔ اس لیئے قربانی کبھی بھی معمولی نہیں ہوتی، اس بے غرضی کا القصہ انتہائی ضروری ہے، قربانی کی قدر وصف الٰہی ہے۔ انسانی دلوں کے ٹیپسٹری میں، جب بھی ایک تسلسل اور جذبہ قربانی پھوٹتا ہے، توایک گہرا فلسفہ جنم لیتا ہے، جہاں صرف بہادر روحیں گھومتی ہیں۔

دیکھو! اس قربانی کے فرمان کا نچوڑ، عظیم دلوں کے لئے ایک آواز، ایک اتحاد، ایک رقص، ایک عشق، ایک مست اور اپنے مست پر وارے جانے والی سمو۔

زندگی کے اس عظیم مرحلے کی کائناتی سمفنی کے اندر، بے غرضی کا راگ ہر دور میں بجتا رہتا ہے۔ پرہیزگاری کے بیج، پاک دلوں میں ہی بوئے جاسکتے ہیں، یہ صرف ایسے کاموں میں کھلتی ہیں جو ہمیشہ کے لیے قائم رہیں۔ قربانی کی چنگاری، ایک فرمان الٰہی، شفقت کے انگارے جلانا، نرمی سے، کیونکہ اپنے آپ کو سپرد کرنے میں ایک تضاد ہے، کیونکہ جو روح آزادی پاتی ہے، وہ آسمانوں کو بلند کرتی ہے۔

تاریخ کے صحیفوں میں شہیدوں کی کہانیاں رہتی ہیں، وہ جنہوں نے بہادری سے دفاع کیا،، اپنی قسمت کو گلے لگا کر، ان کی قربانی، ایک تاب ضیا، ایک رونق، ایک جوت، ایک محبت، ایک سنیہ، ایک انس، ایک پریت و الفت، روشنی و محبت اور کچھ نہیں سوائے اٹل کے تضاد کہ اور تضاد تو ظلمت و نفرت ہی ہے نا۔

گاندھی کے امن سے لے کر مسیح کی آخری سانس تک، ایثار و قربانی کا سبق موت کو فتح کرتا رہا ہے۔ ان کی زندگیاں، محبت کے عظیم فن کا ایک نمونہ، انسانیت کا درس، اس کے اپنے دل کی گہرائی۔

قربانی میں، ایک تبدیلی ہمیں ملتی ہے، روح، دل اور دماغ کا ایک میٹامورفوسس ملتا ہے۔ انگارے لپیٹتے ہی فینکس اٹھتے ہیں،
آنسو بھری الوداع کے ساتھ تقدیر کو گلے لگانا پڑتا ہے۔ بے لوث فضل کے اندر، محبت کے ایسے بیج ڈالنے پڑتے ہیں، جنہیں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ کیونکہ خود کو دینے میں ہی، ہم پرماتما بن جاتے ہیں، اور جہاں ہماری روحیں جڑی ہوئی ہیں، وہ ایک آسمانی نشان بن جاتا ہے۔

لیکن اس خوبصورتی کے درمیان، ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے، کہ خود کی قربانی، بغیر کسی تکلیف کے نہیں۔ اپنی انا کو ختم کرنے سے اندھیرا طعنہ مار سکتا ہے لیکن پھر بھی، ہمدردی کی صبح، یہ تو چمکے گی، کیونکہ اس صبح کی مانگ لہو سے سینچی گئی ہوتی ہے، جو آسمان شفق کی صورت دکھاتی رہتی ہے۔

شہیدوں کی داستان، کانٹے دار راستے، پھر بھی، ہمت کے پروں پر، انسانیت کو کھلایا جاتا ہے، قربانی کے امرت کے لیئے، روح کی حقیقی لذت،
خود سپردگی میں ہے، جہاں یہ اپنی طاقت تلاش کرتا ہے۔

تو آئیے قربانی کے فلسفے کو اپنائیں، محبت کا ایک سرینیڈ، ایک آسمانی آلہ بن کر کیونکہ اس کے اندر، زندگی کا اصل مقصد مضمر ہے، خودی کو گلے لگاکر، ھستی سے جدا ہونا اور آسمانوں کو چھونا۔

اس عظیم کائنات میں، جہاں روحیں رقص کرتی ہیں اور گھل مل جاتی ہیں، ہم سب کو اس سے آگے بڑھنے کی ہمت ملے، ہماری خود غرض خواہشات، ہماری چھوٹی موٹی مانگیں، اور پرہیزگاری کی ریت کا فلسفہ خدا کرے کہ ایثار کے سمندر کی لہروں کی نظر ہوکر بکھر کر وجود کھودے اور پارہ پارہ ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں