بھوت ۔ منیر بلوچ

288

بھوت 

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

باہڑ نے زندگی کے تلخ یادوں سے نکلنے کے لئے ارادہ کیا کہ کسی کے ساتھ سفر پر نکل جاؤں, سفر صرف ذہنی تھکن کو دور کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ان حالات و واقعات کا مشاہدہ بھی کرنا تھا جو اس دور کے سسکتے ہوئے انسانوں کا مسلہ تھا, بھوک و افلاس, تنگدستی, غربت , بے بسی ,لاچاری,مجبوری اور ظلم و جبر جو ہر سماج کا حصہ ہے۔ لیکن بدبختی سے ایک محکوم قوم ذہنی و جسمانی ہر طرح کی سختیوں کو جھیلتا ہے اور اپنے بے بسی پر آنسو بہاتا ہے۔

باہڑ اپنے دوست کے ساتھ سفر پر نکلا اور مختلف علاقوں سے گزر کر وہاں کی بے بسی و لاچاری کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے علاوہ اپنے موبائل میں بھی نوٹ کرتا رہا۔شہر کی پر رونق محفلوں میں رہنے والے باہڑ کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا کیونکہ اس نے کبھی اپنے آنکھوں سے انسانوں کے اس قبیل کو نہ دیکھا تھا جو ظلم بھی سہے اور لب بھی نہ کھولے اور یہاں کے لوگ اپنے ہی لوگوں کے ظلم و جبر و ناانصافی کا شکار تھے۔

ظاہرا زندہ لیکن مردہ انسانوں کو دیکھ کر باہڑ اپنے دوست سے کہنے لگا کہ میرے لوگ کیوں اتنا ظلم سہہ کر خاموش ہے یہ خاموشی ایسے طوفان کا پیش خیمہ ہے جس کا نقصان ہم کئی عرصوں سے اٹھارہے ہیں اور مستقبل میں یہ خاموشی ہمیں ہمیشہ کے لئے گمشدہ کردیں گی۔

وہ چلتے رہے اور وہاں کی بلند و بالا پہاڑوں, نہروں اور آبشاروں کو دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی لیکن جو دکھ و تکلیف انہیں کھائی جارہی تھی کہ کتنی خوبصورت زمین ہے لیکن اس خوبصورت زمین کے مالک کتنی بدصورت زندگی گزار رہے ہیں۔ رات کو وہ ایک گاوں کے نزدیک پہنچے اور رات وہیں قیام کرنے کا فیصلہ کیا یہ گاوں باہڑ کے ہمسفر کا آبائی گاوں تھا اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ صبح ہوتے ہی گاوں کے اندر داخل ہونگے اور اپنے لوگوں سے مل کر حال احوال پوچھیں گے۔

صبح ہوئی انہوں نے نزدیک موجود ایک ہوٹل سے چائے پی اور گاوں کا رخ کیا, تیس منٹ چلنے کے بعد وہ گاوں کے اندر داخل ہوئے اور کسی کے گھر پہنچے,میزبان نے روایت کو مدنظر رکھ کا ان کا استقبال کیا اور پھر ان کا حال احوال اور سفر کی روداد پوچھی۔ لیکن دوران گفتگو باہڑ نے میزبان کی لڑھکتے زبان اور خوف و پریشانی کو محسوس کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہاں بے بسی اور مجبوری کی کہانی پچھلے گاوں کی بے بسی اور مجبوری سے الگ ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کو بس خوف اپنی معاش کا ہے لیکن یہاں خوف بستا ہے اور یہ خوف یہاں کے لوگوں کے چہروں پر عیاں ہے۔ باہڑ نے اپنے دوست کو کہا کہ وہ ضرور اس مسلئے کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تاکہ ان خوبصورت چہروں پر بدصورتی کا ننگا ناچ ختم ہو۔

باہڑ صبح سویرے اٹھا ناشتہ کیا, اپنے دوست اور گاوں کے ایک نوجوان کو لیکر گاوں دیکھنے چلا گیا لیکن وہ جہاں جاتا خوف کو دیکھتا نجانے کیا خوف تھا کہ وہ لوگوں کے چہروں پر عیاں تھا اس نے اس لڑکے سے پوچھ لیا کہ یہاں کے لوگوں کے چہروں پر پریشانی اور خوف کا عنصر کیوں نظر آرہا ہے جب ہم دو سال قبل یہاں آۓ تھے اس وقت کا منظر نظر نہیں آرہا آخر کیا وجہ ہے۔ اس لڑکے نے چھپانے کے لاکھ کوشش کی لیکن باہڑ باز نہ آیا تو مجبور ہو کر اس لڑکے نے کہا کہ ہمارے گاوں میں بھوتوں کا بسیرا ہے جو یہاں کے لوگوں کے گھروں میں گھس کر لوگوں کو اٹھاتے ہیں لیکن انہیں کوئی نہیں دیکھتا بس آتے ہیں اور لوگوں کو غائب کردیتے ہیں آج ایک سال کا عرصہ مکمل ہوا ہے اور اس گاوں سے پچاس لوگ غائب ہے ان کا کسی کو کچھ نہیں پتہ اور میں تم لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہو کہ یہاں سے نکل جاو ورنہ تم لوگ بھی غائب ہوجاو گے۔

ان باتوں کو سن کر باہڑ اور اسکے دوست پریشان ہوئے لیکن انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ ان مسائل کا کوئی حل ضرور نکالیں گے اس لئے انہوں نے گاوں کے سربراہ اور بزرگوں سے ملاقات کی اور لوگوں کی پریشانی اور خوف کو بیان کیا تو اس ذمہ دار نے کہا کہ ہاں یہ بات سچ ہے کہ یہاں یہ مسلہ موجود ہے لیکن ہم کمزور اور بے بس ہے کچھ نہیں کرسکتے بس رو رو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں کہ کب بھوت آکر ہمیں لے جائینگے۔ باہڑ اور اسکے دوست نے کہا کوئی راستہ تو ہوگا تاکہ اس مسائل کو حل کیا جاسکے تو گاوں کے بزرگوں نے کہا ایک ہی راستہ ہے کہ اس گاوں سے نقل مکانی کرکے کسی اور جگہ کو آباد کیا جائے اسکے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں کیونکہ ہم اتنے طاقتور نہیں کہ ان بھوتوں کا مقابلہ کرسکیں۔باہڑ نے بزرگوں کی باتیں سن کر کہا یہ تو مسائل کا حل نہیں بلکہ خوف کو مذید بڑھانے کا عمل ہے آج ہم خوف کا شکار ہو کر نقل مکانی کریں گے کل اگر دوسرے گاوں میں بھی بھوت آئیں تو پھر ہم نقل مکانی پر مجبور ہونگے ہمیں لازم ان کا راستہ روکنا ہوگا ورنہ ہماری آنے والی نسل اس خوف کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ناکارہ ہوجائیں گے۔ان کا اجلاس ختم ہوا اور باہڑ نے کہا کہ ہم ہر حال میں ان بھوتوں کو یہاں سے نکال باہر کریں گے چاہیے کچھ بھی قیمت ادا کرنا پرے۔ اجلاس ختم ہوا سب اپنے گھروں کو چلے گئے, باہڑ اپنے دوست کے ساتھ اسکے رشتہ داروں کے گھر چلا گیا۔ طلوع آفتاب کے بعد سب پہلے جیسا مگر باہڑ اور اس کے دوست کا کمرہ کا دروازہ کھلا تھا اور جوتےوہیں پڑے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔