بلوچ اور پشتون ریاستی جبر کے شکار ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

91

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5098 روز میں بھی جاری رہا۔

آج پی ٹی ایم لورالائی کے کارکنان آصف پشتون، غنی پشتون، عبدالقدیر پشتون اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ بلوچ، پشتون قوم اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، چاروں طرف ظلم اور جبر کی سیاہ بادلوں نے آسمان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں ایک طرف قبضہ گیریت کو طول دینے کے لیے بلوچ، پشتون نسل کشی کر رہی ہے دوسری طرف سے قوم کے عظیم سپوت اپنے پاک لہوں سے مادر وطن کی حفاظت کر رہے ہیں ہزاروں کی تعداد میں قوموں کی با غیرت فرزندیں قبضہ گیر فوج کے سامنے سر با کفن ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا دوسری جانب وہ لوگ جو ابھی تک قومی ذمہ داری نبھانا اپنی جگہ قومی احساس نہ ہونے کے برابر قومی حالات جنگ میں ہے نوجوانوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑے ہیں بلوچ پشتونوں کے گھر جل رہے ہیں بلوچ خواتین جبری لاپتہ اور ان پر حملے ہورہے ہیں ڈاکٹر وکلا استاد دانشوار اور ہر شعبہ فکر کے لوگ ٹارگٹ ہورہے ہیں ساٹھ ہزار مرد اور تین سو خواتین رياستی اذیت خانوں میں خفیہ اداروں اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں لواحقین اپنے پیاروں کی بازيابی کے لئے بھوک پیاس کو خاطر نہ لاکر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پریس کلبوں گلی گلی کوچوں میں احتجاج کرنے پر مجبور ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف لاشیں گر رہی ہیں اور ہم اپنے عیاشیوں میں مست ہیں بلوچ گھر میں جیٹ طیاروں سے حملے ہو رہے ہیں اور ہمییں اپنے کاروبار کا فکر ہے ہمیں اپنے اہل عیاں کی فکر ان کے بارے میں سوچتے نہیں جو عقوبت خانوں میں اذیت سہ رہے ہیں بلوچ لاپتہ افراد کی چھوٹی چھوٹی بچیاں پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتال میں بیٹھے اپنے پیاروں کی بازيابی لے لئے احتجاج کر رہے ہیں وہ صبح اسکول جانے کے بجاۓ پریس کلب خارخ کرتے ہےکیا ہمیں احساس ہے کہ یہ بچے بھی اسکول جانا چاہتے ہیں مگر ہمیں صرف اپنے بچوں کی مستقبل اور تعلیم کا فکر ہے۔