سمعیہ بلوچ جہد کا سمندر ۔ دودا بلوچ

475

سمعیہ بلوچ جہد کا سمندر 

تحریر: دودا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بچپن سے، میں نے اپنے والدین اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے سنا ہے کہ بلوچ قوم مضبوط، بہادر اور عزت دار ہے۔ آج، میں ان تمام خوبیوں کو سمعیہ، لیجنڈ جیسے افراد میں مجسم دیکھ رہا ہوں۔ سمعیہ کی خود قربانی بلوچستان کے لیے ایک نئی تبدیلی لائے گی اور خطے میں پاکستانی بربریت کا خاتمہ کرے گی۔ جب ریحان نے خود قربانی کی کارروائی میں حصہ لیا تو سب نے سوچا کہ یہ بلوچ جدوجہد کا خاتمہ ہے۔ تاہم، ریحان کی خود قربانی کے عمل نے دراصل بلوچ جدوجہد کو ایک اور اہم سنگ میل حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھایا۔ ریحان سے لے کر سمعیہ تک یہ ایک طاقتور تحریک بن چکی ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا۔ سمعیہ کی خود قربانی کا عمل بلوچستان کی جدوجہد کو مزید تقویت دے گا، بالکل اسی طرح جیسے ریحان کی قربانی نے دی تھی۔

مجھے سمعیہ کی باتوں پر پختہ یقین ہے کہ یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمارے دشمن لالچ سے کارفرما ہیں اور کرائے کے قاتل ہیں، جبکہ سمعیہ اور اس کے ساتھی صرف اور صرف اپنی آزادی اور حب الوطنی کے لیے لڑتے ہیں۔ سمعیہ کی خود قربانی ہزاروں لڑکیوں کو بلوچستان کی آزادی کے مقصد میں شامل ہونے کی ترغیب دے گی، اور اس کا یہ عمل لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو مجید بریگیڈ میں حصہ لینے کی ترغیب دے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم نے بیس سال پہلے ایسا ہی خود قربانی کا اقدام کیا ہوتا تو آج ہمارے دشمن ہماری سرزمین پر قابض نہ ہوتے۔ اب ہمارے دشمن اپنی شکست سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ جنگیں ہمت، قومیت اور حب الوطنی سے لڑی جاتی ہیں، پاکستان میں پیسے کے زور پر بننے والے کرائے کے قاتلوں میں ایسی خوبیاں نہیں ہیں جو بلوچ قوم کے آگے کڑے رہین۔ سمیحہ کی خود قربانی ایک ایسی آگ ہے جو پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کا نتیجہ بلوچستان کا آزادی ہوگا۔

سمعیہ صرف ایک فرد نہیں ہے۔ وہ بلوچستان ہے۔ ہر آزادی پسند اس کے اقدامات کو بڑے فخر سے سلام کرتا ہے۔ آج سمحیہ نے اپنی قربانیوں سے پورے بلوچستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ یاد رکھیں سمعیہ کا نام تاریخ میں ایسے خوبصورت، دلیر اور قابل فخر الفاظ سے لکھا جائے گا جسے دنیا کبھی نہیں بھولے گی۔ قومیں تب تک زندہ رہتی ہیں جہاں قربانیاں دی جاتی ہیں۔ قربانی ہی آزادی کا واحد راستہ ہے اور سمعیہ نے بلوچستان کی خاطر اپنی جان قربان کی۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں لیجنڈ سمعیہ بلوچ جیسی مضبوط شخصیات میسر ہیں، جو تمام حدوں کو عبور کر کے لازوال قربانیاں دیتی ہیں۔ قوم مارے جانے سے تباہ نہیں ہوتی۔جب تک وہ مزحمت کر رہے ہین یہ تب ختم ہو جاتا ہے جب کوئی قربانی دینے پر تیار نہین ہوتی ہے ۔ اس لیے ہم قربانیاں دیتے ہین تاکہ آزاد ہوجائین اور بحیثیت قوم رہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ جب تک سمحیہ کا کردار موجود ہے اور مزاحمت کرتا رہے گے اسن وقت تک ہمین کوئی دوسرے قومین تباہ نہین کر سکتے ہین ۔ ہم سمحیہ کے قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں اور جب تک دنیا میں ایک بلوچ باقی ہے اسُے یاد کرتا رہے گا۔ وہ بلوچستان کا فخر ہیںن کیونکہ وہ بلوچ جدوجہد کے ایک سمندر کی نمائندگی کرتی ہے۔ بلوچستان اور اس کے شہداء زندہ باد۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں