سمعیہ اور کچھ سوال ۔ بیورگ

365

سمعیہ اور کچھ سوال 

تحریر: بیورگ 

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں انسان نے علم کو عمل میں پنپ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور اس سے راہ روشنی حاصل کی اور تنگ نظر گلیوں ،خون کی ہولی ،لاشوں کی بو سے ، زندان میں مرنے سے چھٹکارا پایا خوف کے سائے میں نہ رہ کر آزادی کے لیے خود کو قربان کیا۔

وہی جب بھی کوئی قوم غلام ہوتا ہے تو وہاں کے حالات ان میں سے کچھ عظیم شخصیات کا نام تاریخ کے پنوں کو سرخ کردیتے ہیں۔ قدیم یونان جمہوریت کے لیے جانا جاتا تھا مگر صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لیے آمریت سے کچھ کم نہیں تھا۔ یونان میں عورت کو مرد کی ملکیت کہا جاتا تھا حتی کہ سقراط جیسے فلاسفر عورت کو منحوس اور نامکمل انسان کہتا تھا۔ عورت کو فتنہ فساد کے لیے بنایا گیا اور عورت کو بس مرد کے سکون کے لیے بنایا گیا ۔

افلاطون جو سقراط کا شاگرد تھا وہ کہتا تھا سانپ کے ڈسنے کا علاج ہے مگر عورت کے فتنہ فساد کا علاج ناممکن ہیں۔ جو اج کے دور انسان سوچتے ہے وہ یونان کے لوگوں نے پہلے سوچ لیا تھا۔مگر سوال یہ ہے کہ آیا عورت واقعی منحوست کی علامت تھی کیوں عرب ادوار میں عورتوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ؟ ھندو رسم “ستی ” میں مرد کے مرنے کے بعد عورت کو اس کے ساتھ دفنایا جاتا تھا یا جلایا جاتا تھا۔

آج بھی دنیا میں index کے مطابق ترقی یافتہ ممالک یورپ ، امریکہ جیسے ریاستوں میں سالانہ %70 عورتوں ،بچوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے ۔ مگر ایسا کیوں جہاں دنیا کی تاریخ میں آزادی کی جنگوں میں عورتوں نے شدت کے ساتھ جنگ کرکے اس جنگ کا خاتمہ کیا جو انہیں غلامی کی طرف انھیں گھسیٹ رہی تھی۔ جنگ کا لفظ سن کر ہم یہی سمجھتے ہے موت کا دوسرا نام جنگ ہے اور درحقیقت جنگ اس بات کی گواہی ہے کہ آپ نے مر کر زندہ رہنا ہے اور خود کا ناحق قتل عام ،لاپتہ ہونا ، مسخ شدہ لاشیں ملنا، شناخت کے پر خطر ہونے سے اپ کو روکتی ہیں۔ وہی دنیا کی تہذیب میں عورتوں کے ساتھ غلط سلوک رکھا گیا مگر آج بھی بلوچستان ،کوہ سلیمان اور جہاں جہاں بلوچ علاقہ ہے وہاں ریپ کا شرح زیرو فیصد میں ملے گا اپ کو۔

وہی بلوچ قوم میں عورت کو دیکھ کر لوگ راستہ بدل جاتے ہیں عزت کی وجہ سے ۔ دو قبیلوں کی جنگ میں عورت کا انا سے مراد ہے جنگ کا خاتمہ ۔مگر بعض لوگوں کا سوال یہ ہے کہ کیا عورت کو جنگ میں گھسیٹنا یا استعمال کرنا جیسے ناکارہ الفاظ کا استعمال کرنا سہی ہے یا غلط ۔اب سوال یہ اتا ہے کیا سمعیہ قلندرانڑی یا شاری کا فدائی کرنا سہی تھا یا غلط؟

کیا بلوچوں کی جنگ صرف مردوں کی جنگ ہے ؟

کیا بانڑی پانی پت کی لڑائی میں نہیں لڑی تھی ؟

کیا گل بی بی نے جنرل ڈائر کو شکست نہیں دیا تھا ؟

کیا حانی نے ترکوں کو نہیں بھگایا تھا جنگ میں ؟

اگر یہ سب جنگ نہیں ہے تو کیا ہے بلوچوں میں مرد اور عورت کی حیثیت برابر ہیں۔اج بھی بلوچستان میں جہاں بھی جاو مہمان کے لیے سارا انتظام گھر کی عورتیں کرتی ہے وہ بھی جب وہاں ان کے گھر مرد نہیں ہوتے۔اب سوال یہ ہے جو بحث پاکستانی میڈیا یعنی ریاستی بیانہ ہونا چاہیے وہ بلوچ کی زبان پر کیوں تلخ کلامی کررہا ہے ؟ بلوچ کیوں اس بحث میں بار بار خود کو مزید الجھا رہا ہے اور کیوں ریاستی بیانہ کو مضبوط کررہا ہے۔

بقول قادر مری ستر کی دہائی میں ہمیں کھانے پینے کا سامان عورتوں نے پہنچایا ہے۔ کیا یہ جنگ نہیں کہ ایک مرد اگر شھید ہوتا ہے تو اس کی بچے یتیم ہوجاتے ہے ،بیوی بیوہ ہوجاتی ہے گھر کا سایہ اٹھ جاتا ہے کیا یہ جنگ نہیں؟

کیا یہ جنگ نہیں جب اپ اپنے سامنے سب گھر والوں کو لاپتہ ہوتے دیکھو اور مسخ شدہ لاشیں قبروں سے نکالوں اور کندھا دینے کے لیے مرد کی بجائے عورتیں ہوں ؟

کیا دنیا کی تحریکوں میں صرف عورتوں نے بچے جنے ہیں یا کرد قوم کی طرح اس جنگ کو کاندھا دیا جو ان کے لیے لڑی گئ۔

جنگ Matter of existance ہے جو صرف Resistance کی بنیاد پر اپ کی شناخت کو برقرار رکھتا ہے وہ جس صورت میں ہوں۔جنگوں میں نئی پالیسیاں ہوتی ہے جہاں الجزائر میں چھوٹے بچے سے انفارمیشن کا کام لیا گیا جیسے فرانسسی نے شھید کیا تھا۔جنگ میں جب ریاست نے کبھی اپ کے بچوں ،بڑھے ،عورتیں اور مردوں کو نہیں بخشا تو تم جنگ کو اپنے مزاج کے مطابق کا نام مت دو۔ جنگ کسی بھی جنس کا نام نہیں ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں