ایک میٹھی نیند (حصہ دوئم ) ۔ نوشاد بلوچ

463

(ایک میٹھی نیند (حصہ دوئم

تحریر نوشاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں اب وہاں بیٹھ کے اُس ساتھی کو دیکھ رہا تھا کافی دیر سے اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا، وہ جاتے ہوئے “گون” (جسے آپ جنگلی پِستہ کہہ سکتے ہیں) کے درخت سے کچھ میوہ توڑ کر کھالیتا ہے باقی بچا کُچھا اپنے چھوٹے سے دزپاگ یعنی اپنے رومال پہ باندھ لیتاہے اور وہاں سے روانہ ہوتا ہے۔غالباً وہ انہیں اپنے دوپہر کا کھانا یا کسی دوست کے لئے لے جا رہا ہو ، ایک ہاتھ میں اپنے پانی کے خالی بوتل کو جسے ہم مقامی زبان میں “کَلِّی” کہتے ہیں لئے وہ کبھی اپنے بندوق کو دائیں کاندھے سے اُٹھا کر بائیں کاندھے میں لٹکا رہا تھا ، وہ کبھی اُسے اپنے چہرہ کی طرف کرتا، دور ہونے کے وجہ سے میں سمجھ نہیں سکا یقیناً وہ اپنے بندوق کو چُوم رہا ہو اُسے آنکھوں پہ رکھ رہا ہو اور وہ کیوں نہ چومے اپنے بندوق کو، بندوق جِسے ہم اپنا سب سے قریبی دوست سمجھتے ہیں جو ہر وقت ایک مُخلص دوست کی طرح ہمارے ساتھ رہتا ہے جسے ہم کبھی اپنے سے الگ نہیں کرتے، تحریک میں اولین ترجیح ہم اس بات کو دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے اسلحہ کا بہتر طریقہ سے خیال رکھنا ہے ، ہر وقت فرض نبھانے سے پہلے اور فرض نبھانے کے بعد جب ہم سب ساتھی ایک جگہ بیٹھ کر بندوقوں کو صاف کرتے ہیں تو ہمیں ایک لگن سا محسوس ہوتا ہے، اُن کے ساتھ پھر جب فرض کے ٹائم وہ دشمن پر آگ برساتے ہیں ، اُنکا ہر ایک تیر ہواؤں کو چیرتے ہوئے بزدِلوں کے سینوں میں ایک رشک کے ساتھ پیوست ہوتی ہے۔

پاس میں بیٹھے دوربین کے ذریعہ دیکھنے والے ساتھیوں کے ہونٹوں سے “قُربان ورناک” کا لفظ حوصلوں کو مزید توانائی بخشتے ہیں۔

سنگت جاتے ہوئے اب میری نظروں سے اُجھل ہو رہاتھا،
اُس کی باتیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے تھے گویا وہ اب بھی میرے پاس بیٹھا ہو۔

میں اُس سنگت کے مُخلصی اور جہد آجوئی کے ساتھ اُسکی لگن کے بارے میں سوچنے لگا جو سنگت کے باتوں سے واضح طورپر نظر آرہا تھا، ایک سنگت پوری رات ایک عدد بلوچی چادر کے ساتھ ان بڑے بڑے تلاروں ، چٹانوں کے بیچ پہرہ دے رہا ہے اور اب وہ کیمپ جاکر کسی اور زمہ داری نبھانے میں مصروف کار رہے گا، اب یہ باتیں مُجھے اور میرے زخمی تارتار ضمیر کو جِھنجھوڑ رہے ہیں، گُزشتہ شب آنے والے خواب سے اب مجھے نفرت ہونے لگا ہے، پھر میں اپنے آپ سے کہنے لگا، خود کو کوستا رہا کہ میں بھی کتنا بڑا خودغرض نِکلا اپنی اِس تھکن کو چھپانے کے لئے میں ایک خواب کو دوش دے رہا ہوں جِس کی کوئی حقیقی تعبیر بھی نہیں۔

میں تو اپنے اُستاد سنگت دِلجان کی آخری آرام گاہ کے سرہانے کھڑے ہوکر اپنے آپ سے اور اُن سے یہ وعدہ کر چُکا تھا ، میں بھی اُنکی طرح آخری گولی تک لڑتا رہونگا لیکن اب کیا ہوا ابھی تک تو میرے جاٹے میں چار میگزین گولیاں پڑے ہوئے ہیں اور مجھے اسطرح کے خیالات آنے لگے ہیں۔

میں تو ایک ماں سے یہ وعدہ کرکے نکلا تھا شہید سنگت نثار کے دکھائے ہوئے اس راستے پر ہمارے خاندان کا ہر ایک بچہ جب جوان ہوگا تو قُربانی کے اِس جذبے سے سرشار ہوگا مگر کیا ہوا ؟ کیا میں اس خاندان کا سب سے آخری لڑکا ہوں؟ نہیں میں آخری نہیں ہوں بلکہ میں تو پہلا ہوں ہماری مائیں آج بھی اؤلادیں جنم دے رہی ہیں۔ آج بھی جب میں تراسانی سے گزرتا ہوں ایک گُم نام سپائی سنگت صمد زہری کے قبر پہ لگے اُس تختی کو تکتا رہتا ہوں۔ جس پر صرف اُنکا نام لکھا ہے میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے میں وہ تختی بدل کر
اُس پہ پارود میں کِھلا زھری کا گواڑخ لکھ دوں۔
اس پہ انکا نام سرمچار صمد زھری عرف شیرا لکھ دوں
اور انہیں بلوچستان کا رام پر ساد بسمل لکھ دوں ،
ان کے قبر پر قومی پرچم لہراؤں،
انقلاب زندہ باد کے نعروں کے ساتھ اُنکے قبر پر راکٹوں کے فائر کا شدید گونج لاکر انہیں عظیم الشان انداز سے الوداع کروں،
اور وہاں کے ہر گھر سے ایک سرمچار پیدا کرکے انہیں قومی جنگ سے روشناس کروں،
شہیدوں کا دیا ہوا اِس زھری کو میں سرداروں ، وڈیراؤں سے چُھڑا کر قومی جنگ کا مسکن بنا دوں۔

یہ سب کرنے کے لئے ہمیں اب بھی بہت سی محنتیں کرنی ہیں، بہت سے ادھورے کام پورے کرنے ہیں ہمیں ، بہت سے مشقتیں برداشت کرنی ہوگی پھر جاکے ہم سفلتا پائینگے۔ اب بھی ہمیں بہت سے قربانیاں دینے ہونگے ، اب بھی ہمیں بہت سے لہو بہانے ہونگے ،
بس ہمیں مخلص رہنا ہیں،
ثابت قدم رہنا ہیں،
مضبوط رہنا ہیں،
اور جُڑے رہنا ہیں،
اور جنگی ضرورتوں کو ساتھ لیکر چلنا ہیں،
یادیں اور خواہشات جب اپنا رُخ موڑ لیتے ہیں تو بہت سے چہرے سامنے آنے لگتے ہیں ، بس پُختگی سے ہمیں یہاں کے سنگروں سے چمٹے رہنا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں