شدت پسندی کے خاتمے کیلئے جنسی تفریق ختم کرنا ہوگا – ضیاء لانگو

493

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر امن امان کی صورتحال بے حد تشویشناک ہے، شدت پسندی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں جنس کا لحاظ ختم کرنا ہوگا۔

نجی ٹی وی سے خصوصی انٹرویو میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ شدت پسندی پروان چڑھانے میں تین عناصر درکار ہوتے ہیں۔ ان میں پہلا مالی معاونت ہے، پاکستان میں شدت پسندی پروان چڑھانی ہو تو بھارت اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے، اسی کے ساتھ ہی بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتا.

ضیا اللہ لانگو کے مطابق تخریب کاری کے فروغ میں دوسرا عنصر شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ شدت پسند ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیاں کرکے سرحد عبور کر جاتے ہیں، جہاں افغانستان میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں. اس حوالے سے مزید نشاندہی کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اندرونی امداد وہ تیسرا عنصر ہے جو شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ملک میں شرپسندوں کو مختلف عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گرد قانون سے بچ جاتے ہیں. ایک سوال کے جواب میں ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی واقعی ہوئی ہے۔ جیسے ہی افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہو جائے گا شدت پسندی میں واضح کمی واقع ہوگی، اس کے علاوہ سیکیورٹی اداروں کو شدت پسندوں سے مقابلے کرنے کے لیے جدید خطوط پر تربیت دی جائے گی۔

اس سوال پر کہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق بلوچ لبریشن آرمی پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ میر ضیا اللہ لانگو نے کا کہنا تھا کہ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک نہیں ہوں گے تب تک کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ صرف حکومت یا طاقت کے استعمال سے شدت پسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ شدت پسندوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور جب ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو ایوان میں تمام سیاسی جماعتیں جب کہ سڑکوں پر سول سوسائٹی نکل آتی ہے اور اگر شدت پسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں نہ لائی جائے تو کہتے ہیں کہ حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ایسے میں میرا ماننا ہے کہ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں ہوں گے تب تک شدت پسندی کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔

میر ضیا اللہ لانگو نے جبری لاپتہ و بعدازاں گرفتاری ظاہر کیے جانیوالی خاتون ماہل بلوچ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے دین میں عورت کا ایک خاص مقام ہے، جنگ میں بھی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو استثنٰی حاصل ہے۔ ہماری روایات میں اگر لڑائی ہو رہی ہو اور خاتون نکل آئے تو ہم لڑائی ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں شرپسند عناصر خواتین اور بچوں کو میدان میں لے آئے ہیں۔ گزشتہ برس ہمارے دوست ملک چین سے آئے مہمانوں کو خاتون خود کش بمبار نے نشانہ بنایا، جس کے بعد اس خود کش بمبار کو ہیرو بنایا دیا گیا۔ کیا حکومت کو ایسی خاتون کے سر پر دوپٹا پہنانا چاہیے تھا؟ دیکھیں اگر ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں جنس کا لحاظ ختم کرنا ہوگا اگر کوئی شدت پسندی میں ملوث ہوگا تو اسے سزا دی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جس دن مجھے وزیر داخلہ کا عہدہ ملا تب سے میری کوشش یہی رہی ہی کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے لاپتا افراد کے ورثا کی بات سننا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ حقائق کیا ہیں، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے میر ضیا اللہ کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں افغانستان میں 40 سے زائد ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں موجود تھیں جن کی مداخلت بلوچستان میں بھی تھی ایسے میں یہ پتا لگانا کافی مشکل تھا کہ لاپتا ہونے والے شخص کو کس نے اٹھایا ہے، جو ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔ تاہم لاپتا افراد کے معاملے پر حکومت نے ان کے اہلِ خانہ سے ملاقاتیں کیں ہیں اور معاملے کو حل کیا جارہا ہے۔

کیا بلوچستان میں سرداروں کی نجی جیلیں موجود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے فیک نیوز کی بھرمار ہوگئی ہے، لوگ بنا کسی تصدیق کے خبر کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ بارکھان واقعے میں ہم نے دیکھا کہ پہلے ایک واویلا مچایا گیا کہ کنویں سے گران ناز کے لاش برآمد ہوئی ہے، لیکن اس کے بعد وہی خاتون منظر عام پر آگئی۔ اس معاملے سے متعلق میں نے تمام اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو خط لکھا تھا، جس کا متن یہ تھا کہ کیا آپ کے علاقوں میں نجی جیلیں موجود ہیں؟ تاہم اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے کوئی تصدیق نہیں کی۔ جہاں تک بات کی جائے بارکھان واقعے کی تو خان محمد مری کے اہل خانہ کو ان کے حوالے کیا گیا اور اب معاملہ عدالت میں موجود ہے۔

آئندہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے کردار سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں افراد کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے، اس سے جماعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ماضی میں مسلم لیگ ق ایک مضبوط جماعت تھی آج اس کی حالت دیکھیں، لیکن ایسی صورت حال میں بھی جماعت قائم ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات ایک عام سے بات ہے۔ تاہم ان لوگوں سے ضرور رابطہ کریں گے جو ہم سے ناراض ہیں۔