بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا تئیسواں مرکزی کونسل سیشن بیاد لمہء وطن بانک کریمہ بلوچ و شہدائے آجوئی اور بنام بلوچ اسیران منعقد کیا جارہا ہے۔ آج 17 اپریل بروز منگل بلوچ شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اور بلوچ قومی ترانے کے ساتھ تنظیم کے مرکزی کونسل سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
تیسویں مرکزی کونسل سیشن کے پہلے روز مرکزی چیئرمین کا خطاب، آئین سازی، سیکرٹری رپورٹ اور تنقیدی نشست پر کونسلران کے درمیان تفصیلی بحث و مباحثہ ہوئی ۔
مرکزی کونسل سیشن کا پہلا ایجنڈا مرکزی چیئرمین کا خطاب تھا جس میں چیئرمین ابرم بلوچ نے کونسلران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھ کر انتہائی مسرت ہو رہی ہے کہ بی ایس او کے کیڈرز اس سخت حالات میں بھی مکمل طور پر پرامید اور ہر طرح کے مصائب سے گزر کر اس مشکل وقت میں تنظیم کی جانب سے منعقدہ دیوان میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر موجود ہیں، میں بلوچ وطن دوستی کے عظیم نظریے پر عمل پیرا ان تمام دوستوں کو اس دیوان میں خوش آمدید کہتاہوں جنہوں نے نہ صرف دشمن کے اس غرور کو خاک میں ملا دیا ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے بی ایس او کو کمزور اور ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے بلکہ ان تمام رد انقلابی قوتوں کیلئے بھی ایک مثال بنا دیا ہے جنہوں نے بی ایس او آزاد کے عظیم قومی موقف و نظریے اور اس کے عمل و طریقہ کار پر ہمیشہ نکتا چینی کرتے ہوئے بی ایس او کی ناکامی اور مستقبل میں کمزور و ختم ہونےکا اندیشہ دیتے رہے ہیں۔ آج بی ایس او کے انقلابی کیڈرز کی موجودگی میں انہیں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بی ایس او جس طرح آج منظم ہے اس کی مثال نہیں، بی ایس او بلوچ سماج اور تحریک میں جو تبدیلیاں لا رہی ہے وہ تاریخی اور مستقبل میں قومی آزادی تک پہنچنے کا سبب بنیں گے۔
چیئرمین ابرم بلوچ مزید کہا کہ ہمیں اپنے لٹریچر اور پڑھنے کے معیار کو بدلنا ہوگا، ہم گزشتہ بیس سالوں سے ایک ایسی لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں جوموجودہ دور میں بےاثر ہے۔ بلوچ نوجوان گزشتہ کئی سالوں سے ایسے تحریک اور افراد کو پڑھ رہے ہیں جن کی قومیں آج یا تو غلام ہیں یا آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے قوم کا مستقبل بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اس لیے حالیہ وقت میں بلوچ نوجوانوں کیلئے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ وہ ان اقوام اور شخصیات کا مطالعہ کریں جنہوں نے جدید دور میں اپنے اقوام کو منظم بنایا ہوا ہے۔ اسرائیل جیسی کامیاب ریاستیں جو ایک کروڑ کی آبادی ہوکر آج دنیا میں طاقت ور ترین ریاست اور عرب ممالک کی دھڑا دھڑ حملوں کے باوجود منظم اور متحرک شکل میں موجود ہے،ان جیسی ریاستوں کو دشمن سمجھ کر نہیں بلکہ آئیڈل بناکر پڑھنا چاہیے کہ انہوں نے کم عرصے میں کس طرح تباہ شدہ اور دنیا بھر میں تعصب کے شکار یہودیوں کو ایسی طاقت اور قوت مہیا کی۔ اسی طرح انگریزوں کے غلام اور افیوم میں لت پت چین کو آج ماؤ نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا کہ آج وہ دنیا کی سپر طاقتوں کو آنکھیں دکھا رہی ہے بلکہ اب خود اپنے مقبوضے علاقے بنانے کی کوششوں میں مصرف عمل ہے۔ ہمیں ظالم اور مظلوم کے نکتے سے نکل کر بلوچ قومی مفادات کے حق میں سوچنے، غور و فکر کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔یورپ نے دنیا بھر میں ہزاروں جنگیں لڑھ کر کروڑوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا لیکن آج وہ انسانی حقوق کا چیمپئن بنا پھرتا ہے۔ بلوچ ایک عظیم طاقت بن کر ہی اپنا سب کچھ حاصل کر سکتاہے گزشتہ تین سو سالوں میں ہم نے جو کھو دیا ہے قومی تحریک کی کمزوری اور شکست کی صورت میں موجودہ حالات سے بھی بدتر کا سامنا ہوگا۔وہ قوم جو اس خطے میں نوری نصیر خان کی قیادت میں سب سے بڑا طاقت تھا آج کن وجوہات اور ناکامیوں کی سبب اس مقام تک پہنچ چکا ہے اس پر بلوچ نوجوانوں کو سوچنا اور غور و فکر کرنا چاہیے۔ ایک عظیم قوت و طاقت بن کر ہی ہم انسانی حقوق سے سائل ووسائل تک تمام اختیارات پر اپنا حق جما سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس او آزاد بلوچ قومی تحریک کا اسکول ہے جہاں سے بلوچ نوجوان اور تحریک سے وابستہ باہمت ساتھی اپنے خیالات اور فکر و نظریہ پڑھ کر تعلیم حاصل کرکے تحریک کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کرتی ہیں۔ بطور بلوچ قومی تحریک کے اسکول بی ایس او آزاد کے تمام پروگرامز کی بنیاد بلوچ قومی تحریک اور جدوجہد کو منظم بنانے کیلئے ہونی چاہیے ۔ بی ایس او کی وجود کا تعلق بلوچ قومی تحریک سے ہے ، بلوچ قومی تحریک جتنا زیادہ منظم اور متحرک ہوگا بی ایس او کا بلوچ سماج میں کردار اتنا ہی زیادہ متحرک ہوگا ۔ بی ایس او آزاد کو ایک اسکول کی مانند بلوچ قومی تحریک کی سوچ کو نوجوانوں کے اندر منظم اور متحرک بنانے کیلئے پروگرامز تشکیل دینی چاہیے۔
چیئرمین نے کونسلران سے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو منظم اور متحرک بنانے کیلئے بلوچ نوجوانوں کو فرض اور زمہ داری کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہیے۔ بلوچ نوجوان فرض کے نام پر قومی تحریک کے حوالے سے صرف فارملٹی پورا نہ کریں بلکہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو منظم و متحرک بنانے کیلئے بڑی زمہ داریاں اپنے کندھوں پر سنبھالیں۔ جب ایک غلام جنگ کی حالت میں ہوتی ہے اور اس پر ایک قابض اور جابر ریاست کا قبضہ ہوتا ہے تو اس کے نوجوان صرف فارملٹی کے تحت اپنا فرض پورا کرکے قومی جدوجہد کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ انہیں قومی آزادی کی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بڑی اور اہم زمہ داریاں اپنے کندھوں پر سنبھالنی چاہیے۔ اس وقت بلوچ قومی تحریک کو دشمن کی طرف سے سخت چیلینجز کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب چین جیسی عالمی طاقتیں بلوچ قومی تحریک کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں، انہیں صرف مالی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور دیگر ذرائع سے بھی مکمل طور پر چین جیسی سامراجی ریاستوں کی معاونت حاصل ہے ۔ ایسے حالات میں بلو چ نوجوان صرف فارملٹی پورا کرکے قومی تحریک کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ انہیں تحریک سے جڑے اہم زمہ داریاں لیکر آگے بڑھنا چاہیے اور تحریک کو مزید متحرک و منظم بنانے پر اپنی توانائیاں خرچ کرنی چاہیے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ موجودہ حالات میں قابل اور باصلاحیت نوجوان ہی تحریک کو منظم انداز میں تشکیل دے سکتے ہیں اور دشمن کے مقابلے متبادل طاقت قائم کر سکتے ہیں اس لیے بلوچ نوجوانوں اور بلخصوص بی ایس او آزاد سے جڑے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ قومی شعور و فکر کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں پر بھی کام کریں اور جو نوجوان جس بھی فیلڈ میں بہترین صلاحیت قائم کر سکتی ہے اس پر اپنی توجہ دیں اور بلوچ قومی تحریک میں آگے جاکر اس فیلڈ میں منظم انداز میں کام کریں۔ یہ قابل اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ایک صدی ہے جو نوجوان بلوچ قومی تحریک کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے کیلئے تیار ہو سکتی ہے پھر اس کیلئے اپنی صلاحیتوں پر کام کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا اس لیے اس بات پر کافی توجہ کی ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان جذبات اور تحریک سے دلی وابستگی کےساتھ تحریک کے مختلف جہتوں کو منظم اور متحرک کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں پر بھرپور طریقے سے کام کریں اور انہیں حالیہ دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیں تاکہ ایک منظم ترین تحریک کا قیام ممکن ہو سکے ۔