پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ہراساں کررہے ہیں – لواحقین لاپتہ شاہ فہد

343

بلوچستان کے ضلع خاران سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ شاہ فہد ولد محمود خان بلوچ کی لواحقین کے مطابق انہیں اداروں کی جانب سے مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے۔

ایک سال قبل خاران سے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے شاہ فہد ولد محمود خان بلوچ کے فیملی ذرائع کے مطابق پاکستانی ادراے بشمول ایف سی اور سی ٹی ڈی کی جانب سے ان کی فیملی کو ہراساں کیا جارہا ہے کہ اپنے بیانات بلخصوص پولیس ایف آئی آر اور لاپتہ افراد کے کمیشن کو دیے گئے رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے بجائے نامعلوم افراد کو نامزد کریں۔

یاد رہے کہ 16 مارچ 2022 کو رات گئے خاران شہر سے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے 21 سالہ نوجوان شاہ فہد ولد محمود خان کو ان کے گھر بابو محلہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

فیملی ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گھر میں تلاشی کے دوران موبائل فونز و دیگر قیمتی اشیاء سمیت 70 ہزار روپے نقد اور بچوں کے کھلونے بھی چوری کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فیملی والوں کو دھمکی دی کہ سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر درج نا کروائیں۔

شاہ فہد کی جبراً گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے اور اس عرصہ میں ان کی فیملی نے کوئٹہ میں قائم لاپتہ افراد کے کیمپ سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ فیملی کی جانب سے سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے خاران پولیس کو درخواست بھی دی جاچکی ہے، اس کے علاوہ لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن کو بھی درخواست دی جاچکی ہے جسکے فہرست میں شاہ فہد ولد محمود خان کا نام باقاعدہ درج ہے۔

ذرائع کے مطابق چونکہ لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن کی سنوائی قریب ہے اس وجہ سے لاپتہ شاہ فہمد کی فیملی کو ہر طرح سے ہراساں کیا جارہا اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

فیملی ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں انہیں خاران ایف سی کیمپ بلایا گیا اور وہاں ایف سی کرنل اور سی ٹی ڈی حکام کی موجودگی میں انہیں ہراساں کیا گیا اور دھمکی آمیز انداز میں تنبیہ کیا گیا۔ فیملی کی جانب سے لاپتہ افراد کے کمیشن کو دیئے گئے بیان میں سے سی ٹی ڈی کا نام نکال کر زبردستی نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا۔

ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ پولیس کی جانب سے بھی انہیں تنگ کیا جارہا ہے کہ ایف آئی آر کیلئے دیے گئے درخواست میں سی ٹی ڈی کے بجائے نامعلوم افراد لکھیں تب ہی ایف آئی آر درج کی جائے گی۔