بلوچی کشیدہ کاری ثقافت کا حصہ یا زریعہ معاش ۔ شھناز شبیر

462

بلوچی کشیدہ کاری ثقافت کا حصہ یا زریعہ معاش

تحریر: شھناز شبیر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچی کشیدہ کاری برسوں قدیم بلوچ ثقافت کا اہم ترین حصہ تو ہے لیکن اب یہ ثقافت سے زیادہ زریعہ معاش بن گیا ہے اور اس سے ہزاروں افراد خصوصاً خواتین وابستہ ہیں۔ مگر کیا بلوچی کشیدہ کاری ایک منافع بخش کاروبار ہے؟

شاہ آباد تُربَت کی پچاس سالہ شمساتون بلوچی کشیدہ کاری میں مصروف بتا رہی تھیں کہ بلوچی کشیدہ کاری سے گھر بیٹھے خواتین ماہانہ تیس سے چالیس ہزار کمارہی ہیں۔ شمساتون بھی ان کشیدہ کاروں میں سے ایک ہیں جو بلوچی کشیدہ کاری کے ذریعے اپنی خاندان کی معاشی بوجھ کو ہلکا کررہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بلوچی کشیدہ کاری کے زریعے اپنے خاندان کی بہت حد تک مدد کر رہی ہیں کیونکہ ان کے شوہر مزدور ہے، اور ان کی مزدوری سے صرف گھر میں تین وقت کا کھانا ملنا بھی مشکل ہے۔ اسی وجہ سے میں کشیدہ کاری کرکے گھر کے دیگر اخراجات اور بچوں کے تعلیم کے لیے معقول پیسے کا بندوبست کرتی ہوں۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں کشیدہ کاری کرکے اتنا پیسہ کما رہی ہوں کہ اب میرا بیٹا شہر سے دور پڑھ کرکمیشن کے امتحان کی تیاری کررہا ہے، کشیدہ کاری کے لئے کوئی تعلیم کی ضرورت نہیں بلکہ ہم نے بچپن سے اپنی بزرگ عورتوں سے یہ ہنر سیکھی ہے۔

بقول شمستانوں کے اسکی بیٹیاں صبح سکول جاتی ہیں اور شام کو گھر آکر بلوچی کشیدہ کاری میں ماں کا ہاتھ بٹاتی ہیں، اس سے نہ صرف وہ اپنی تعلیمی اخراجات پوری کرتی ہیں بلکہ اپنے لیے اچھی اور مہنگے سوٹ پر نقش و نگار کرتی ہیں۔

روزک آبسر تربت کی رہائشی ہے اور دیگر بلوچ خواتین کی خاطر ایک دوچ گر ہے، دوچ گر بلوچی میں ماہر کشیدہ کار عورتوں کو کہا جاتا ہے۔ روزک کا کہنا ہے کہ ہمارےگھر کا خرچہ ہی بلوچی کشیدہ کاری سے چلتا ہے۔ کیونکہ ہم سب گھر والے کشیدہ کاری میں ماہر ہیں اور میری بہو اور بیٹیاں بھی سلائی کڑھائی کرکے پیسہ کما رہی ہیں۔ ان کے مطابق ہر دوچ کا ریٹ الگ ہوتا ہے اور مارکیٹ میں جو نئے دوچ آتے ہیں انکا ریٹ اس لئے مہنگا ہوتا ہےکیونکہ سب دوچ گر ان سےناواقف ہوتے ہیں اور جب یہ دوچ وائرل ہوتے ہیں تو پھر دوسری بلوچ عورتیں انکو سیکھ جاتی ہیں پھر انکی ریٹ کم پڑجاتی ہے۔ بلوچی کشیدہ کاری ایک منافع بخش کاروبار۔

کچھ بلوچ عورتیں خود سلائی کڑھائی کا کام نہیں کرتی ہیں بلکہ وہ مختلف خواتین کے کپڑے لیتی ہیں اور دیگر دوچ گروں کو سلائی کڑھائی کے لئے دیتی ہیں اور پھر وہاں سے منافع بھی حاصل کرتی ہیں۔ ایسے خواتین کراچی، عمان ،ایران اور دیگر علاقوں میں جہاں بلوچ خواتین رہائش پذیر ہیں۔ ٹھیکے پر سوٹ لیتے ہیں اور پھر مکران کے کشیدہ کاروں کو کرایہ پر دیتے ہیں۔ اگر ہنر مند خواتین برائے راست اپنی رسائی کلانٹس تک کر پائیں تو صحیح معنوں میں یہ کام ایک منافع بخش کاروبار بن سکتا ہے ان عورتوں کے لئے جو اپنی محنت کم داموں پر فروخت کررہی ہیں۔

پسماندہ علاقوں کے خواتین کے لئےبلوچی کشیدہ کاری ایک پروفیشنل جاب ہے۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں چونکہ عورتوں کے لیے تعلیم کے مواقع محدود ہیں اور بہت سے علاقوں میں لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مواقع تک دستْیاب نہیں ہیں۔ اس لئے ان علاقوں کے بچیاں بچپن میں یہ ہنر سیکھ لیتی ہیں اور گھر میں بیٹھ کر ماہانہ تیس سے چالیس ہزار کما لیتی ہیں۔

قبائلی رسم و رواج کے حامل علاقوں میں جہاں بلوچ خواتین بہت کم گھروں سے باہر نکلتی ہیں وہاں کے عورتیں یہ ہنر سیکھ کر معاشی طور پر مستحکم ہوتی ہیں۔

چند مشہور بلوچی دوچوں کا نام

بلوچی دوچوں کے بھی مختلف اور انوکھے نام رکھے جاتے ہیں اور ہر دوچ دوسرے سے منفرد ہونے کےساتھ ریٹ بھی الگ ہوتا ہے۔ بلوچی زبان کے معروف گلوکار سے منسوب دوچ ” عارف ءِ ِ چادر، اس طرح ایک قوم پرست پارٹی نیشنل پارٹی سے منسوب دوچ ” نیشنل پارٹی،بانک کریمہ ، اس کے علاوہ جالار، کپوک، تلمل ساچ، جوسک ءِ ِجلواہ، آپسر ءِ ِ زید اور ان کے علاؤہ بھی بہت سے دوچ مشہور دوچ ہیں۔ جن کے الگ الگ ریٹ ہیں۔

بلوچی کشیدہ کاری بلوچ ثقافت کا ایک اہم جز

بلوچی کشیدہ کاری زمانہ قدیم سے بلوچ ثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے، بلوچ خواتین کپڑوں پر مختلف ڈیزائن اور منفرد نقش و نگار کرکے اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں اجاگر کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ کپڑوں پر نقش و نگار کے اچھی معاوضہ بھی انکو ملتی ہے۔

بلوچی کشیدہ کاری بلوچ ثقافت سے جڑا ایک ایسا ہنر ہے جیسے صدیوں سال پہلے بلوچ خواتین نے ایجاد کیا ہے، اور باریک سوئی سے کپڑوں پر ایسے نقش و نگار بناتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ بلوچی کشیدہ کاری میں معمولی سی غلطی پر اس کو دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔

بلوچی کشیدہ کاری سے بنائے گئے سوٹ کہاں کہاں پہنے جاتے ہیں؟

بلوچی کشیدہ کاری کا ڈیمانڈ زیادہ تر مکران اور آواران میں ہے کیونکہ زیادہ تر دوچ گر خواتین مکران اور آواران سے تعلق رکھتی ہیں۔ بلوچی کشیدہ کاری کی مانگ نہ صرف بلوچستان اور سندھ میں ہے بلکہ ایران اور خلیجی ممالک میں رہائش پذیر بلوچ عورتیں بلوچی کشیدہ کاری سے مزین کپڑے شوق سے پہنتی ہیں۔ آج کل یورپ میں بلوچی دوچ سے نقش و نگار والے کپڑے شوق سے پہنے جاتے ہیں۔

بلوچی کشیدہ کاری کیسے کی جاتی ہے

بلوچ خواتین کے مطابق بلوچی کشیدہ کاری ایک مشکل اور مہنگا ہنر ہے، کیونکہ ایک عام سی باریک سوئی میں دھاگہ ڈال کر کپڑوں پر نقش و نگار کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک جوڑی کپڑا پانچ سے چھ مہینے کی کشیدہ کاری کے بعد تیار ہوتی ہے اور ہر ڈیزائن کا ریٹ الگ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین گھر بیٹھ کر یہ کام کرتے ہیں اور کچھ خواتین صرف اپنے اور بچیوں کے پہننے کے لئے کشیدہ کاری کرتی ہیں اور زیادہ تر دوسرے عورتوں کی کپڑوں پر نقش و نگار کرکے معاوضہ لیتی ہیں۔

بلوچی کشیدہ کاری میں کپڑے کو الٹا کرکے اس پر کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ مختلف قالب بنائے جاتے ہیں جن کو رنگ برنگی دھاگوں سے پر کرکے مختلف نقش و نگار کئے جاتے ہیں جو منفرد ہوتے ہیں۔

مکران بلوچی کشیدہ کاری کا اہم مرکز

مکران تین اضلاع پر کیچ، گْوادر اور پَنجْگُور پر مشتمل ایک ڈویژن جہاں ننانوے فیصد بلوچ آباد ہیں اور یہاں کی تمام عورتیں بلوچی کشیدہ کاری سے نقش و نگار والے کپڑے پہنتی ہیں۔

مکران میں ایسے خواتین ملیں گے جو کہ بلوچی کشیدہ کاری کرکے نہ صرف اپنے گھروں کو چلا رہی ہیں بلکہ گھر بیٹھے دوچ کے ذریعے ماہانہ چالیس سے پچاس ہزار روپیے کما کر نہ صرف اپنے شوہر کے ہاتھ بٹھاتے ہیں بلکہ انہی دوچ کی فن سے واقف ہوکر اپنے بچوں کو بھی ملک کے اچھے کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھا رہے ہیں۔بدلتے وقت کے ساتھ۔

مشینی دوچ سے بلوچی کشیدہ کاری کو خطرات لاحق

بلوچ عورتیں چونکہ ہاتھوں کے انگلیوں سے سلائی کڑھائی کرتے ہیں اور ایک سوٹ تیار کرنے میں کئی ماہ لگتے ہیں جبکہ مشینی کڑھائی میں یہ دو سے تین دن میں تیار ہوتا ہے۔ مشینی کڑھائی کم وقت اور کم قیمت میں تیار ہوتا ہے جبکہ ہاتھوں کی انگلیوں سے کشیدہ کاری میں وقت اور پیسہ زیادہ لگتا ہے۔ بلوچی کشیدہ کاری چونکہ عورتیں کرتی ہیں اور جبکہ مشینی کڑھائی میں یہ کام مرد کرتے ہیں جو ان عورتوں سے زیادہ کماتے ہیں۔ جبکہ مارکیٹ میں نئے ڈیزائن کے مشینی دوچ سے بلوچی کشیدہ کاری متاثر ہوسکتی ہے اس طرح بدلتے وقت کے ساتھ مشینی دوچ سے بلوچی کشیدہ کاری کو خطرہ لاحق ہیں ۔

بلوچی دوچگر عورتوں کے لئے کیا کیا جائے کہ وہ بھی باقاعدہ اپنے کام کو ایکسپریس کر سکیں اور ساری دنیا تک آسانی سے پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں اس بات کہ جواب میں جتنے بھی ہم نے انٹرویو کیئے تھے ان سب عورتوں کا کہنا تھا کہ باقاعدہ یہاں ایسے فیکٹریز بنائے جائیں جہاں ہماری محنت کے حساب سے ہمیں پیسے مل سکیں اور اتنا کام ہم سے لیا جائے کہ ہم اپنے گھر اور بچوں کا خیال بھی اسی طرح رکھ سکیں کہ جیسے آج ہم رکھتے ہیں اور ان فیکٹریوں جب ہزاروں عورتیں مل کر کام کریں گی تو کام بھی باآسانی اور جلد تیار ہوگا۔

لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہم بلوچ اپنے کپڑے کا انتخاب اور اس کی سائیز بھی خود ہی طے کرتے ہیں تو اس لئے بلوچ دوچگر خواتین کے کام کی آسانی کے لئے اور جلد کام ختم کرنے اور بلوچی دوچ کو ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے لگائے جائیں ۔اور جو بلوچ قوم نہیں ہیں لیکن بلوچ دنیا کے ہر کونے میں آباد ہیں تو باقی اقوام بھی ہماری خوبصورت کڑھائی کو بہت پسند کرتے ہیں اس لئے فیکٹریوں میں ڈیزائنر سوٹ بھی تیار کئے جائیں تاکہ ان پر بھی بلوچی دوچ کو ہم بنا سکیں۔ اور ہماری نوجوان بچیوں کو باقاعدہ ٹریننگ دی جائے کہ وہ اپنے پیدائشی ہنر کو اور بہتر بنا سکیں اور فیشن کی دنیا میں اپنا نام بنا سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں